دورِ حاضر کے عظیم مبشرِ انجیل پیری اسٹون (Perry Stone) نے چارلی کرک کا ابتدائی کلیسیا کے پہلے شہید ستفنسؔ کے ساتھ ایک خوبصورت موازنہ پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات پیش کئے ہیں۔ یاد رہے کہ ستفنس شہید کا ذکر اعمال کی کتاب کے ابواب ۶ اور ۷ میں ملتا ہے:
1. ستفنس فضل اور قدرت سے بھرا ہوا تھا۔
2. ستفنس باضابطہ طور پر مناد یا واعظ نہیں تھا البتہ وہ کلیسیا کا ایک عظیم قائد ضرور تھا۔ اُسے سات دوسرے منتظمین کے ہمراہ رسولوں نے انتظامی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے چُنا اور مقرر کیا تھا۔
3. وہ بھی عوامی مجمعوں میں لوگوں کے بحث کیا کرتا تھا اور وہ ایسی حکمت سے بولتا تھا کہ مخالفین کے پاس اُس کے دلائل کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
4. وہ تاریخ اور مقدس صحیفوں کے حوالوں سے اپنے دلائل پیش کر کے اپنے حریفوں کو چاروں شانے چت کر دیا کرتا تھا۔
5. وہ ہمیشہ تیر بہدف ، سچی اور کھری بات کرتا تھا خواہ سوال اٹھانے والے کو کتنی ہی تلخ کیوں نہ لگے۔
6. اُس نے مسیح اور اُس کی موت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنے مخاطب یہودیوں کو ’’قاتل‘‘ کہہ دیا۔
7. جب ہجوم سے کوئی جواب بن نہ پایا تو اُنہوں نے مشتعل ہو کر ستفنس کو سنگسار کر ڈالا جس پر ساؤل بھی راضی تھا کیونکہ وہ کلیسیا کا مخالف ہونے کی وجہ سے یہ سمجھتا تھا کہ ستفنس کا قتل سراسر واجب اور درست تھا۔
8. ستفنس نے اپنی موت کے وقت اپنے مخالفوں کی بخشش کے لئے دعا مانگی۔
یہ تمام نکات چارلی کرک پر بھی صادق آتے ہیں جس بنا پر اُسے بھی عہدِ حاضر کا مسیحی شہید کہا جا سکتا ہے جیسے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور ابرہام لنکن وغیرہ۔
’’مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اگر تُم میں رائی کے دانے کے برابر بھی اِیمان ہو گا تو اِس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سِرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تُمہارے لِئے نامُمکِن نہ ہو گی۔‘‘ — متی