تحریر: اسٹیفن رضاؔ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

؎ وہ تو لکھ کے چل دیا تھا دِل پہ اک تحریر سی

عمر بھر میں اُن دُکھوں کا ترجمہ کرتا رہا

(عارف پرویز نقیبؔ)

آج 30ستمبر ہے جسے دُنیا بھر میں پیشہ ور ترجمہ کاروں کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی غرض سے عالمی دِن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ترجمے کے عالمی دِن کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 30 ستمبر کی تاریخ سینٹ جیرومؔ کے یومِ وفات سے منسوب ہے جنہیں بائبل مقدس کے مترجمین کا سُرخیل سمجھا جاتا ہے۔ اُنہوں نے چوتھی صدی عیسوی میں بائبل مقدس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا جسے ولگاتا یا ولگیٹ (Vulgate) کہا جاتا ہے۔ یاد رہے ، سینٹ جیرومؔ ایک عظیم مسیحی عالمِ دین، مترجم اور مؤرخ تھے۔ اُن کی پیدائش 347ء میں روم کے شہر اسٹریڈن (Stridon) میں ہوئی۔ اُن کے علمی کارہائے نمایاں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اُنہوں نے 30 ستمبر 420 ء کو لگ بھگ 75 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اُن کی وفات کا دِن ہی یادگار کے طو رپر ترجمہ کا عالمی دِن قرار پایا۔ ترجمے کے عالمی دِن کا ایک مقدس ہستی اور بائبل مقدس کے عظیم ترجمہ کار سے منسوب کیا جانا دُنیا بھر میں بائبل مقدس کی حقانیت پر ایک اَور گہری مہر ثبت کرتے ہوئے بائبل مقدس اور مسیحی ترجمے کی فضیلت کو بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کرتا ہے۔ بلاشبہ، بائبل مقدس دُنیا کی سب سے قدیم، مستند اور معتبر کتاب ہے جسے دُنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کی جانے والی کتاب کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

مسیحی ترجمے کی افادیت ، وسعت اور تاثیر کا اندازہ بھی اِسی امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج بائبل مقدس ہماری اپنی قومی زبان کے علاوہ کئی علاقائی زبانوں میں بھی ترجمہ ہو کر ہمارے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے۔ میری دانست میں، مسیحی علم و فن کی دُنیا کے حوالے سے ، آج کا دِن بائبل مقدس ، اُس کی تفاسیر اور اُس پر لکھی گئی مسیحی کتب کا ترجمہ کرنے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دِن ہے جس کا کلیسیائی سطح پر ضرور انعقاد کیا جانا چاہئے جن میں سے چند جید نام ہنری مارٹن، وِکلف اے سنگھ ، جیکب سموئیل شنوا اور سموئیل ڈی چند وغیرہ یہاں قابلِ ذکر ہیں۔ آج بھی پاکستان کے طول و عرض میں بہت سے مسیحی نوجوان کتب، مضامین، ٹریکٹس، آڈیو ویڈیو اسکرپٹ ، لائیو انٹرپریٹیشن اور ڈبنگ یا وائس اوور کے لئے ترجمے کی خدمات اپنی اپنی بساط کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔ مَیں اُن سب کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اُن کی انتھک محنت سے کلیسیائے پاکستان کو عالمی پائے کے مسیحی علماء کی تحریروں اور پیغامات سے استفادہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کلیسیائی اور ادارہ جاتی سطح پر اُن کی خدمات کا اعتراف کرنا، اُنہیں معقول معاوضہ ادا کرنا اور عوامی سطح پر اُن کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرنا بے حد ضروری ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ بہت سے ادارے کھُلے دِل سے یہ کام کرتے ہیں مگر اُن کی تعداد معدودے چند ہے اور مزید وسعتِ قلب کی ہنوز اشد ضرورت ہے۔ مَیں اُن مسیحی اداروں کو بھی داد و تحسین کے لائق سمجھتا ہوں جو مسیحی ترجمہ کاروں کی تربیت کے لئے باضابطہ کاوشوں میں مصروفِ عمل ہیں۔

ترجمے کی ضرورت اور اہمیت کی گواہی اِس امر سے بخوبی دی جا سکتی ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ کلیسیائی حلقوں اور عصری مسیحی علوم کے میدانوں میں ابھی بہت سا کام ایسا ہے جس کا ترجمہ اُردُو زبان میں ہونا ابھی باقی ہے۔ کام اتنا زیادہ ہے کہ درجنوں یا سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں تربیت یافتہ بلکہ نعمت یافتہ نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ تحقیق روز بروز نئی منازل طے کر رہی ہے، مصنفین دھڑا دھڑ کتب لکھ رہے ہیں اور اب یوٹیوب کی صورت میں مواد کا حجم اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ اِس کا احاطہ کرنا اب کسی ایک عہد یا نسل کے لئے ممکن نہیں رہا بلکہ اب یہ نسل در نسل جاری رہنے والا کام ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کتاب ترجمہ ہو کر مقامی زبان تک پہنچنے میں دہائیاں بیت جاتی تھیں مگر آج اُدھر کتاب شائع ہوئی اور اِدھر ترجمے پر کام شروع ہو گیا بلکہ میرے ذاتی تجربے میں یہ بات آ چکی ہے کہ اصل کتاب کا مسودہ مکمل ہوتے ہی ایک طرف طباعت و اشاعت کے لئے بھیج دیا جاتا اور دوسری طرف اُس کے ترجمے پر بھی کام شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سب حقائق ترجمے کی خدمت کے حجم اور اُس کی وسعت کو سمجھنے کے لئے ایک اشارہ ہیں اور سمجھدار کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ مقصد نئی مسیحی نسل کے پڑھے لکھے اور ترجمے کی خدمت میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کو اِس کی طرف راغب کرنا ہے۔

ترجمے میں پیسہ بہت ہے مگر اِس خدمت کی دشواری ، اہمیت اور جان ماری کی حقیقت کو سمجھنے اور اُس کا پاس رکھنے والے بہت کم ہیں اور اگر کسی ترجمہ کار کو ایسا ایک بھی جوہری مل جائے تو اُس کی زندگی سنور جاتی ہے۔ تاہم، اصل معاملہ پیسہ نہیں بلکہ خدمت ہے کیونکہ آپ کے ترجمے کا معیار، اِس خدمت کے ساتھ آپ کی وابستگی ، اِسے خدمت کے طور پر اپنانے کی سوچ اور سب سے بڑھ کر آپ خدمت میں آپ کی ساکھ اِس کے اصل معاوضے کا تعین کرتی ہے۔ میں شخصی طور مسیحی ترجمے کو ایک خدمت کے طور پر لیتا ہوں اور گزشتہ 16 برس سے کُل وقتی طور پر اور مجموعی طور پر پچھلے 22 سالوں سے اِس خدمت میں مشغول ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ترجمہ روح القدس کی ایک باقاعدہ نعمت ہے اور یقیناً مسیحی مواد کا ترجمہ بھی اِسی نعمت کے زمرے میں آتا ہے جو ترجمے کی خدمت کے لئے لفظی علم سے کہیں زیادہ ضروری ہے کیونکہ اگر مصنف نے روح القدس کی تحریک سے کسی تحریر کو قلمبند کیا ہے تو اُس تحریر کے مقامی زبان میں ترجمے کے لئے اُسی روح القدس کی نعمت سے آراستہ شخص کا اُس تحریر کے لئے بطورِ مترجم میسر آنا سونے پر سہاگے والی بات ہوتی ہے۔ آج خدا کا شکر ہے کہ یہی خدمت میری اور میرے خاندان کی گزر بسر کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ میں خود کو ایک تربیت یافتہ سے زیادہ نعمت یافتہ ترجمہ کار سمجھتا ہوں اور انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم نے میری اِس نعمت کو چمکانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ترجمے پر بات کریں تو رسماً یہ بیان کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ترجمہ کیا ہے؟ ترجمے کا میدان بہت وسیع اور تاریخ بہت قدیم ہے۔ اگر مختصر ترین لفظوں میں بیان کیا جائے تو میری دانست میں ، ترجمہ علم کو ایک زبان سے دوسری زبان میں ڈھالنے کا نام ہے مگر ترجمے کی خدمت تہذیبوں، قوموں اور خیالات کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ترجمہ ایک ایسا پُل ہے جو مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ دُنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں، تعلیمی اداروں اور سائنسی و تحقیقی مراکز نے ترجمے کی بنیاد پر ترقی کے زینے زیادہ سرعت کے ساتھ طے کئے۔ ترجمہ ایک تخلیقی عمل ہے۔ بہترین ترجمہ کار وہ ہے جو لفظوں کے ساتھ ساتھ اُس کی روح کو بھی مقامی لہجے میں ڈھال سکے جس کے لئے زبان، زبان دانی اور فنِ ترجمہ پر عبور کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت اور بصیرت کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ ایک کامیاب ترجمہ وہی سمجھا جاتا ہے جسے پڑھ کر قاری کو ایسا محسوس ہو کہ گویا وہ تحریر اُسی کی زبان میں لکھی گئی ہے۔

اِس ضمن میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے جسے ایک مکمل کتابی شکل دینے کا سلسلہ گزشتہ تین برس سے تاحال جاری ہے اور امکان اغلب ہے کہ اگلے سال یعنی 2026 میں یہ سلسلہ پایۂ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ یعنی مَیں فنِ ترجمہ کاری پر اپنی تصنیف کا ذکر کرر ہا ہوں جو بہت جلد ’’اصولِ مسیحی ترجمہ‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئے گی جس کے مسودے پر 75 فیصد کام ہو چکا ہے۔ مذکورہ بالا خیالات بھی اُسی کتاب کے حوالے اور آج کے دِن کی مناسبت سے آپ کے گوش گزار کئے گئے ہیں۔

اب اپنے اِس مضمون کے اختتام پر گفتگو کا سلسلہ واپس وہیں سے جوڑتا ہوں جہاں سے شروع کیا تھا کہ 24 مئی 2017 کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے باضابطہ طور پر 30 ستمبر کو انٹرنیشنل ٹرانسلیشن ڈے کے طور پر مقرر کیا گیا جس کا مقصد اقوامِ عالم کو زبان کی بنیاد پر جوڑنے والے پیشہ ور ترجمہ کاروں کی خدمات کو تسلیم کرنا اور اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ ہر سال اِس دِن کی مناسبت سے ترجمہ کاری کے میدان میں سرگرداں افراد کے لئے ایک نیا نعرہ، مقصد، ہدف اور اندازِ فکر متعارف کرایا جاتا ہے۔ 2025 کے لئے یہ نعرہ ہے ’’ترجمہ، ایک ایسے مستقبل کی تشکیل کا ذریعہ جس پر آپ بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘‘