تلخیص و ترجمہ: اسٹیفن رضاؔ
۔۔۔
خلاصہ: آج سے 17 سال قبل، 1998 میں، ٹیڈ (TED) کی ایک کانفرنس کے دوران ٹیکنالوجی، ایمان اور انسانی خامیوں کے عنوان پر عہدِ حاضر کے عظیم مبشرِ انجیل جناب بلی گراہمؔ نے اپنے خطاب کے دوران ہماری زندگیوں اور اِس بدلتی دُنیا پر ٹیکنالوجی کے اثرات سے متعلق بات کرتے ہوئے حاضرین کو حیرت میں مبتلا کر دیا خاص طور پر جب اُنہوں نے کہا کہ گناہ، دُکھ اور موت کے بڑھتے ہوئے زور کی روک تھام کے معاملے میں جدید ٹیکنالوجی بے بس نظر آتی ہے اور اِس کا واحد حل یہی ہے کہ ساری دُنیا مسیح پر ایمان لا کر اُسے اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر قبول کرے۔ ایک پڑھنے لائق تحریر!
۔۔۔
مَیں یہاں ایک پادری کی حیثیت سے کھڑا ہوں اور آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مَیں خود کو یہاں کس قدر غیر موزوں محسوس کر رہا ہوں، جیسے کوئی ماہیٔ بے آب یا کوئی پرندہ بے ہَوا۔ کچھ عرصہ قبل مَیں سان ہوزے میں منادی کر رہا تھا، جہاں میرے عزیز دوست مارک کوامیؔ نے ، جنہوں نے مجھے اس کانفرنس سے متعارف کرانے میں مدد کی، سیلیکون ویلی کی چند بڑی کمپنیوں کے سربراہان کو میرے ساتھ ناشتے پر مدعو کیا۔ وہ ملاقات میرے لیے انتہائی حیران کن اور تحریک آمیز تھی بلکہ میرے لئے اُن لوگوں کی باتیں سننا ایک چشم کشا تجربے جیسا تھا جس میں وہ بتا رہے تھے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت انسان کس قدر تیزی کے ساتھ اُس دُنیا کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا آج سے پہلے تصور بھی محال تھا۔
مجھے معلوم ہے کہ ہم اِس کانفرنس کے اختتام کے نزدیک ہیں ، اور شاید آپ میں سے کچھ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں مذہب کے میدان سے تعلق رکھنے والے ایک مقرر کو کیوں بلایا گیا ہے۔ اِس کا جواب رچرڈ ؔ صاحب دے سکتے ہیں کیونکہ یہ فیصلہ اُن کا تھا۔ کچھ سال پہلے، مَیں فلاڈلفیا کی ایک کانفرنس میں خطاب کے لئے مدعو تھا ، اور برقی سیڑھیوں پر ، ایک آدمی کہہ رہا تھا، ’’مَیں نے سنا ہے بلی گراہمؔ بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔‘‘ دوسرے نے میری طرف دیکھ کر کہا: ’’ہاں، وہ سامنے دیکھو۔‘‘ پہلے آدمی نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور بولا: ’’اچھا ، یہ تو میری توقعات کے بالکل برعکس ایک بالکل سادہ اور عام سا آدمی ہے۔‘‘ میری دُعا ہے کہ اتنی عمدہ اور حیرت انگیز تقاریر سننے کے بعد آپ کو میری تقریر بھی اُس آدمی کی طرح توقع کے برعکس نہ لگے۔
ایک مرتبہ مَیں، نارتھ کیرولینا کے شہر شارلٹ کے میئر، جان بیلؔ کے ہمراہ ہوائی جہاز میں محوِ سفر تھا۔ جہاز میں ایک شخص نشے میں دھت ہو کر سب کو پریشان کر رہا تھا۔ آخرکار میئر نے اس سے کہا: ’’کیا تم جانتے ہو یہاں کون بیٹھا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں!‘‘ میئر نے کہا: ’’یہ دیکھو، بلی گراہمؔ صاحب یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘ وہ آدمی فوراً میری طرف مڑا، ہاتھ بڑھایا اور بولا: ’’آپ کے پیغامات نے واقعی میری بہت مدد اور رہنمائی کی ہے۔‘‘ میں نے دل میں سوچا، یہ کیسی مدد اور رہنمائی ہے۔
آج جب اِس وقت آپ سب ایک تابناک مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں، تو میری بھی خواہش ہو گی کہ کاش میں بھی اُس زمانے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں، مگر اب میں اسّی (۸۰) برس کا ہو چکا ہوں، اور میرا وقت قریب ہے۔ میری دونوں ٹانگوں میں سوزش رہتی ہے اور اوپر سے پارکنسنز اور دوسری بیماریوں نے مجھے لاغر کر دیا ہے۔ مگر ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب دُنیا پہلی بار دیکھنے نہیں جا رہی۔
بائبل مقدس کا تاریخی مطالعہ بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں بھی ایک ایسا وقت آیا جب فقط ایک بڑی تبدیلی نے اُنہیں مشرقی سرزمین پر ایک بہت بڑی طاقت بنا دیا تھا۔ داؤدؔ بادشاہ جب مسندِ حکمرانی پر براجمان ہُوا تو وہ بیک وقت ایک شاعر بھی تھا، فلسفی اور ایک خرد مند قائد بھی جس نے اسرائیل کو آئرن ایج یعنی لوہے کے زمانے یا دورِ فولاد میں پہنچا دیا۔ اُس سے پہلے، ہتھیار پتھروں سے بنائے جاتے تھے مگر اُس کے عہدِ حکمرانی میں اُنہوں نے لوہے کے ہل، درانتیاں اور ہتھیار بنانا شروع کر دیئے۔ اِس جِدت نے پوری قوم کی ہیئت بدل ڈالی بالکل جیسے آج مائیکرو چپ نے ہماری زندگیوں کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ مگر داؤدؔ نے دیکھا کہ ٹیکنالوجی سارے مسائل کو حل نہیں کر سکتی۔ اُس نے تین بڑے دائمی مسائل دریافت کئے جن میں آج بھی پوری نسلِ انسانی بُری طرح مبتلا ہے اور وہ یہ ہیں: انسانی گناہ ، انسانی دُکھ اور موت۔
پہلا دائمی مسئلہ ہے انسانی گناہ۔ گناہ کا مصدر کیا ہے اور ہم اِس کا سدِ باب کیسے کر سکتے ہیں؟ کائنات کو کھوجنے اور سائنسی حدود کو پرے دھکیلنے کی صلاحیت کے باوجود، کچھ تو ایسا ہے جو بدستور غلط ہو رہا ہے۔ ہم آج بھی جنگوں پر جاتے ہیں، تعلقات کو برباد کرتے ہیں اور ایسی عادتوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن کے شکنجے سے ہم کبھی نکل نہیں پاتے۔ نسل پرستی، بے انصافی اور شدت پسندی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ بائبل مقدس فرماتی ہے کہ مسئلہ ہمارے اندر ہے یعنی ہمارے دِلوں اور زندگیوں میں۔ یسوعؔ نے کہا تھا کہ دِل سے ہمیشہ بُرے خیالات اور اعمال نکلتے ہیں۔ آئین اسٹائنؔ نے بھی ایک مرتبہ کہا تھا کہ پلوٹونیم کی ہیئت کو بدلنا انسان کی بُری خصلت کو بدلنے سے زیادہ آسان ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کے ساتھ نہیں، مسئلہ ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے والے انسان کے ساتھ ہے۔ خود داؤدؔ کو بھی گناہ کی کشمکش کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ معافی کا طلبگار ہُوا اور دیکھا کہ صرف خُدا ہی اُس کی جان کو بحال کر سکتا ہے۔
دوسرا دائمی مسئلہ انسانی دُکھ ہے۔ سائنس نے ہمارے دُکھ کافی کم کر دئیے ہیں مگر سارے نہیں۔ یہاں تک کہ جدید ترین معاشروں میں بھی، ہمیں مفلوک الحالی، شکستہ خاندانوں، بیوفائی اور ناقابلِ برداشت دباؤ کا ہنوز سامنا ہے۔ کوئی انسان ایسا نہیں جسے کوئی دُکھ یا فکر نہ ہو۔ ایوب کی کتاب فرماتی ہے کہ ’’جیسے چنگاریاں اُوپر ہی کو اُڑتی ہیں ویسے ہی اِنسان دُکھ کے لئے پیداہُوا ہے۔‘‘ داؤدؔ نے خُدا کا طالب ہو کر اپنا جواب حاصل کیا، یہ کہتے ہُوئے کہ ’’خُداوند میرا چوپان ہے‘‘۔
تیسرا دائمی مسئلہ ہے موت، جو ہمارے دَور کا موضوعِ ممنوع ہے۔ ہم ایسے جیتے ہیں جیسے کبھی نہ مریں گے، مگر موٹ اٹل ہے۔ ایک بار مَیں نے کانگریس کے اندر یہ بات کہی تھی کہ سیاست سے ہٹ کر ، ایک قدر ہم سب میں مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم سب کو مرنا ہے۔ بہت سے لوگ موت کو اُس وقت تک یاد نہیں کرتے جب تک وہ قریب نہ آ جائے۔ ایک خاتون نے مجھے ایک بار بتایا کہ اُس کےوالد، جو زندگی بھر ملحد رہے، بسترِ مرگ پر کسی پادری صاحب سے ملاقات کے آرزو مند تھے۔ مَیں نے ہمیشہ کہا ہے کہ زندگی کا سب سے حیرت انگیز راز، اِس کا مختصر ہونا ہے کیونکہ یہ بہت تیزی سے بیت جاتی ہے۔
مگر موت کو اُمید سے خالی نہیں ہونا چاہئے۔ مشہور سائنسدان ورنر فان براؤنؔ نے کہا تھا کہ سائنس اور مذہب آپس میں دشمن نہیں بلکہ بہنیں ہیں۔ وہ خالق خُدا پر ایمان رکھتا تھا اور یسوعؔ مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی حقیقت کو انسانیت کی واحد اور آخری اُمید سمجھتا تھا۔ جرمنی کے ایک چانسلر کے ساتھ جب میری گفتگو ہوئی تو اُنہوں نے بھی مجھے بتایا کہ وہ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور اِس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھنا چاہتے ہیں۔
بلیز پاسکلؔ ، جن کا شمار تاریخ کے عظیم سائنسدانوں میں ہوتا ہے، وہ بھی گناہ، دُکھ اور موت کے اِنہی سوالوں کے ساتھ اکثر نبرد آزما رہتے تھے۔ پھر ایک گہرے روحانی تجربے کے بعد، اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے یسوعؔ مسیح پر اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ’’دِل کی اپنی ایک منطق ہوتی ہے جسے عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔‘ ‘ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’بازی‘‘ میں وہ یوں رقمطراز ہیں کہ ’’اگر آپ خُدا کے ساتھ بازی لگائیں تو آپ کچھ نہیں ہاریں گے لیکن اگر آپ نے اُسے رد کر دیا، تو آپ اپنا سب کچھ ہار بیٹھیں گے۔‘‘
داؤدؔ بادشاہ نے ستّر (۷۰) برس کی عمر میں یہ بات لکھی تھی کہ ’’خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سےمیرا گُذر ہو۔ مَیں کِسی بلا سے نہیں ڈروں گا کیونکہ تُو میرے ساتھ ہے۔‘‘ یہ ہے انسانی گُناہ، دُکھ اور موت پر اُس کا جواب اور یہی آپ کا جواب بھی ہو سکتا ہے۔
جب مَیں سترہ (۱۷) برس کا تھا تو نارتھ کیرولینا کے ایک دیہی علاقے میں اپنی لاابالی زندگی گزارتے ہوئے صبح شام گائیوں بھینسوں کا دودھ دوہنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی کرنے کی جدوجہد میں بھی ہمہ وقت کھویا رہتا تھا۔ مگر ایک دِن میری ملاقات مسیح سے ہو گئی، جس نے فرمایا، ’’راہ، حق اور زندگی مَیں ہُوں۔‘‘ تب ہی مَیں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ یا تو یہ شخص جھوٹا ہے، پاگل ہے اور یا پھر واقعی وہی کچھ ہے جس کا یہ دعویٰ کر رہا ہے۔ مگر پھر مَیں اُس پر ایمان لے آیا اور اُس نے میری کایا پلٹ دی۔
اب مَیں تیار ہوں کہ کب اُس کا بلاوا آئے اور مَیں خُدا کی حضوری میں جا کر پیش ہو جاؤں۔
بہت بہت شکریہ، خُدا آپ سب کو برکت دے!
’’مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ اگر تُم میں رائی کے دانے کے برابر بھی اِیمان ہو گا تو اِس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سِرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تُمہارے لِئے نامُمکِن نہ ہو گی۔‘‘ — متی