Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
پاکیزگی کی ضرورت - فاختہ

پاکیزگی کی ضرورت

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مشاہدات: 66 پسند: 0

پاکیزگی خدا کی اعلی صفت ہے۔ اسی صفت کو وہ اپنے لوگوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ قدرت نے انسان کو شعور اور فہم و فراست کا جو جذبہ دے رکھا ہے۔ وہ نہ صرف قابل رشک ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بھی ہے۔ تاریخ بہت بڑی گواہ ہے جو قوموں کا احوال اور زمانوں کی داستان سنانے میں شرم محسوس نہیں کرتی۔ اس لیے تو انسان ماضی حال اور مستقبل کی نکیل میں باندھا گیا ہے۔ وہ تاریکی اور روشنی کا گواہ ہے۔تعلیم اور جہالت کی خوبیوں سے واقف ہے۔ راستی اور ناراستی کے کاموں کو جانتا ہے۔ گندگی اور صفائی سے واقف ہے۔ اخلاق اور بد اخلاقی کی لہروں کی طاقت جانتا ہے۔روز مرہ زندگی میں وہ جو کچھ دیکھتا ہے۔ اس کا مشاہدہ ہے۔ وہ اسی حقیقت کا پیراہن پکڑ کر تاریخ مرتب کرتا ہے۔ وہ عقلی دلائل کے بل بوتے حالات کی داستان قلم بند کرتا ہے۔ تاریخ سے جڑے ہوئے لوگ وقت کی مجبوریوں اور حالات کے تھپیڑوں سے واقف ہوتے ہیں۔ انھیں اچھے برے وقت کی پہچان ہوتی ہے۔

زمانہ ازل سے تاحال پاکیزگی کی ضرورت کو ہر دور میں محسوس کیا گیا۔اگر الہیاتی، تہذیبی ، معاشرتی اور مذہبی طور پر دیکھا جائے تو اس کا تعلق جسم و روح کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ انسان کو جہاں جسمانی صفائی کی ضرورت ہے وہاں اس کی روح کو بھی اتنی ہی پاکیزگی کی ضرورت ہے۔ اس صورت میں خیالات کی پاکیزگی گناہ کی دیمک سے بچا لیتی ہے۔ انسان تصوراتی طور پر جتنا زیادہ پاک ہوگا اس کی روح اتنی ہی پاکیزہ اور منزہ جذبوں سے سرشار ہوگی۔ اخلاقی امراض سے چھٹکارا پانے کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکے پاکیزگی کا اطلاق ضروری ہے تاکہ ہماری روح کے ارد گرد پاکیزگی کی باڑ لگ جائے۔ شیطان موقع پرست حیوان ہے جو ہماری قدرتی خوبیاں تباہ و برباد کرتا ہے۔وہ موقع ملتے ہی حملہ کر دیتا ہے۔ انسان کی نفسیات کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے۔اس بات کو مشاہداتی طور پر دیکھا گیا ہے جب فطرت بگاڑ کے ناسوروں سے بھر جائے تو دوسروں کو جلن اور چھبن کا احساس ضرور مل جاتا ہے۔ایسی صورت میں انسان دور رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قدرتی طور پر انسان کے اندر ایسی صلاحیتیں موجود ہیں جو غالب آنے کی بھرپور استعداد رکھتی ہیں۔اگر موقع پر ہی ان کا استعمال کر لیا جائےتو حالات کی سمت تبدیل ہو سکتی ہے۔ اخلاقی امراض ہماری روح کو بری طرح چپک جاتے ہیں۔ اگر انھیں روح کے ام الامراض بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں۔ حسد کینہ بغض جلن ، کڑھن، منفی سوچ ، بری نیت ، برے خیالات فطرت میں ایسے رینگنے والے کیڑے ہیں جو رینگ رینگ کر روحانی صفات کو چاٹ جاتے ہیں۔ انھیں ختم کرنے کے لیے مثبت خیالات کی اسپرے چاہیے جو بر وقت کر دی جائے تاکہ یہ موقع پر ہلاک ہو جاتے ہیں۔تاخیر کی صورت میں یہ مسلسل نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ لہذا بروقت ان کا سد باب کسی بڑے خوفناک حادثے سے بچا لیتا ہے۔

یہ انسانی فطرت کا خاصا ہے کہ وہ صاف ستھرا لباس پہنتا ہے ، صاف ستھری غذا کھاتا ہے ، اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھتا ہے ، حتی کہ اپنے گھر محلہ اور علاقہ کو بھی صاف ستھرا رکھتا ہے۔ حکومتوں کی طرح سے ایسے ملازمین رکھے جاتے ہیں جو حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی قومی شاہرہ ، دفاتر اور روڈ کو صاف ستھرا رکھنے میں مسلسل محنت کرتے ہیں۔ یہ ہم سب کا قومی فرض ہے کہ ہم اپنے ماحول اور معاشرے کو جتنا صاف ستھرا رکھیں گے بین الاقوامی طور پر ہمارا اتنا ہی معیار بلند ہوگا۔ ہمیں عزت و وقار سے دیکھا جائے گا۔

عصر حاضر میں ماحولیاتی آلودگی بھی ایک چیلنج بن چکی ہے۔ ہماری کوتاہیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں نے جتنے مضر اثرات پیدا کیے ہیں۔ وہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ یقینا قدرتی ماحول جتنا زیادہ خوب صورت ہوگا اتنی ہی صاف ستھری آکسیجن مہیا ہوگی۔ انسان مختلف بیماریوں سے بچ سکے گا۔خاص طور پر سانس کے امراض جس میں دمہ اور الرجی جیسے ناقابل شفا عناصر شامل ہیں۔سائنسی تحقیق کے مطابق ان عناصر کے باعث بچے اور بوڑھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہے تاکہ یہ جب فضا میں سانس لیں تو انہیں خوش گوار مسرت کا احساس حاصل ہو۔

ہمارے اوپر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔انھیں پورا کرنا ہمارا اخلاقی مذہبی اور روحانی استحقاق ہے۔ اگر ہم انہیں نبھانے میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہماری نسلیں بھی ہمارے نقش قدم پر چلیں گے۔ ماحولیاتی پاکیزگی بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی جسم اور روح کو پاکیزگی کی ضرورت ہے۔ انسان روئے زمین پر رہتے ہوئے جتنا زیادہ پاکیزگی کا مظاہرہ کرے گا۔اس کا دل و دماغ اتنا ہی پرسکون ہوگا۔ ہم تین طرح کی پاکیزگی کا اطلاق کر کے وہ بہترین انسان ، اور روحانی منش اور ماحول دوست بن سکتے ہیں۔ بات عمل سے پوری ہوتی ہے۔اگر عمل نہیں تو ترقی کا راز ممکن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید