Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم کا فن و شخصیت - فاختہ

پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم کا فن و شخصیت

شاہد ایم شاہد مضامین (دوم) مشاہدات: 127 پسند: 0

پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم کا فن و شخصیت
...
کچھ نام اپنی ذات و عرفان میں معتبر ہوتے ہیں جن کے لیے قلمی وقلبی احساس شدت جذبات کی تصویر بنانے لگتا ہے۔ان میں سے ایک معتبر نام پروفیسر وینسنٹ پیس عصیم صلیبی کا بھی ہے۔
لائل پور( فیصل آباد) کی سرزمین سے جنم لینے والی یہ شخصیت نہ صرف خوبصورت ہے بلکہ ادبی اعتبار سے روح پرور بھی ہے ۔خیر اس بات کی کسے خبر تھی کہ ایم اے پیس (میکسو ایل ایلن) کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ اپنے آباؤ اجداد کے لیے نعمت خداوندی ثابت ہوگا اور تاریخ و ادب میں اپنی مثال آپ ہوگا۔ان کے خاندانی پس منظر کا احوال کچھ یوں ہے کہ
قیام پاکستان کے بعد آپ اپنے والدین کے ہمراہ فیصل آباد آگئے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت دیگر بچوں کی طرح مشنری سکول سی ٹی آئی ہائی سکول سیالکوٹ سے حاصل کی جبکہ بی اے، بی ایڈ اور ایم اے( اردو) پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔
جہاں آپ نے دنیاوی تعلیم و تربیت حاصل کی وہاں آپ الہیاتی میدان میں بھی پیچھے نہ رہے بلکہ مضبوط مذہبی رجحان نے آپ کو پاکستان کی قدیم سمینری فیتھ تھالوجیکل گوجرانوالہ سے ایم ڈیو بھی کیا جس کی بدولت آپ کی فن و شخصیت میں اور نکھار پیدا ہوا۔

اسی شوق و جذبہ نے آپ کو ریڈیو پاکستان خاص طور پر پاکستان کرسچن ریکارڈنگ منسٹری ڈولا فیصل آباد سے بھی منسلک کردیا ۔
جہاں آپ نے بطور صداکار بائبل کی منظوم کتابوں کو ریکارڈ کروایا جسے پوری دنیا میں سنا گیا اور آپ داد و تحسین کے حقدار ٹھہرے۔آپ ساری زندگی درس و تدریس سے منسلک رہے اور پاکستان کے بلند پایہ اداروں میں تدریسی خدمات سرانجام دیں ۔لاسال سکول سے ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور تک کے سفر میں آپ کی تدریسی خدمات کا لوہا مانا گیا۔آپ کا شمار ایف سی کالج کے سینئر اساتذہ میں ہوتا تھا جس میں طلبا و طالبات اور اساتذہ آپ کی قابلیت کے قائل تھے ۔اردو زبان و ادب سے پیار اور ایمانداری نے آپ کی فن و شخصیت کو چار چاند لگا دیے شاید اب ایسے لوگ خال خال نظر آتے ہیں ۔

فاضل دوست نے اپنی ریاضت و رفاقت کے باعث لوگوں کے دلوں میں گھر کر رکھا تھا ۔لہذا آپ کو اپنی پہچان بنانے میں زیادہ دیر نہ لگی ۔پروفیسر عصیم نے جہاں اپنی فکری توانائی سے قوم و ملت کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی وہاں اپنی تخلیقی اور تاثراتی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا ۔آپ نے ساری زندگی علم و ادب کو تابندہ روایت سمجھ کر علم دوستی کا ثبوت پیش کیا اور اپنی تاریخی ، ثقافتی ،اور جغرافیائی حدود و قیود کی پاسداری کرتے ہوئے اسے عام کیا۔
انہوں نے زندگی کے نو عشرے علم و ادب کے پرچار کے لیے گزار دیے ان کی فن و شخصیت میں یہاں شاعری کی حسی قوتیں موجود ہیں ۔ وہاں ان کے اندر نثری فن پارے تراشنے کا کاتب بھی موجود ہے ۔جہاں وہ ایک معلم کے روپ میں سامنے آئے وہاں ایک اچھوتے تخلیق کار کے روپ میں بھی سامنے آئے جوآج بھی ان کی فن و شخصیت کے آئینہ دار ہیں ۔امید ہے ان کا یہ عمل انہیں دیر تک زندہ رکھے گا ۔

ڈرامہ نویس شیکسپیر نے کیا خوب لکھا ہے ۔
“کچھ لوگ عظیم پیدا ہوتے ہیں کچھ پر عظمت لادی جاتی ہے اور کچھ لوگ محنت سے عظمت حاصل کرتے ہیں “

فاضل بزرگ دوست پروفیسر وینسنٹ پیس نے محنت کو اپنا شعار بنایا اور رفتہ رفتہ وہ مقام و مرتبہ حاصل کر لیا جس کی خواہش و ارمان ہر اس محنتی انسان کے دل کی آواز ہوتی ہے جس کا توڑا اسے سونپا جاتا ہے ۔میں یہ لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ خدا نے انہیں علم و ادب کے میدان میں سرخرو کیا ہے بلکہ عزت و حیات کی برکات و فضائل سے بھی نوازا ہے۔
تخلیق ایک آفاقی اور نہ مٹنے والی صداقت ہے جس کا براہِ راست تعلق خدا کی ودیعت سے ہے اسے کسی شخص کو زبردستی سونپا نہیں جا سکتا اور نہ تخلیقی میدان میں کھڑا کیا جا سکتا ہے ۔کیونکہ جب تک کسی پر قدرت مہربان نہیں ہوتی اس وقت تک وہ منطقی اور فلسفی خیالات جنم نہیں دے سکتا ۔یہ خدا کی بخشش ہے جسے وہ انسان کے ذہن کے کھیت میں بڑی آسانی کے ساتھ اتارتے نظر آتے ہیں ۔
میرے نزدیک فاضل بزرگ دوست ایک اچھوتے ،منفرد، لاجواب، باکمال ،منطقی اور فلسفی تخلیق کار ہیں جن کی فن و شخصیت میں تخلیقی ہوا کے تازہ جھونکے ملتے ہیں
یقینا کسی بھی چیز کا تجسس اسے منفرد اور انفرادی بنا دیتا ہے جس سے نہ صرف تخلیقی فن پاروں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ معاشرتی اصلاح کے پہلو بھی سامنے آتے ہیں ۔ انہیں فن شخصیت نگاری اور آپ بیتی لکھنے پر کمال فن حاصل ہے۔

میرے نزدیک وہ بیک وقت کئی تخلیقی اصناف پر دسترس رکھتے ہیں ،جن میں شاعری ،ڈرامہ نگاری ، مضمون نگاری ، افسانہ نگاری ،آب بیتی اور فن شخصیت نگاری شامل ہے ۔ جہاں ان کے جذبات کشیدہ ہوتے ہیں وہاں ان کا دامن فن وصداقت میں لپٹا نظر آتا ہے ۔وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں بڑی صداقت وسچائی سے کہہ کر اظہار کر دیتے ہیں۔
میں نے اپنی دو سالہ رفاقت کا تجزیہ ان کی فن و شخصیت کے آئینے میں دیکھا اور اسے کلیدی حیثیت سے بیان کرنے کی جسارت کی ہے ۔محترم پروفیسر صاحب ہمارے درمیان قومی اثاثہ ہیں جنہیں علمی و ادبی حلقوں میں عزت ووقار سے دیکھا جاتا ہے ۔میں ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا گو ہوں خدا انہیں عمر درازی اور اپنی تخلیقی برکات و فضائل سے مالا مال کرے میں اس شعر سے اجازت چاہوں گا ۔
وفا کریں گے نبھائیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
...
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
(واہ کینٹ)
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید