Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
باپ کا عالمی دن - فاختہ

باپ کا عالمی دن

شاہد ایم شاہد مضامین مشاہدات: 60 پسند: 0

باپ کا عالمی دن

جون کے تیسرے ہفتے ہر سال دنیا بھر میں باپ کا عالمی دن اس غرض و غایت کے ساتھ منایا جاتا ہے تاکہ بچے اپنے والدین کی قربانیوں محبتوں ، وفاؤں اور مہربانیوں کا اقرار کر کے ہمیشہ ان کے ادب و احترام میں اضافہ کریں ۔
بلاشبہ والدین نعمت خداوندی ہوتے ہیں ۔جن پر بچوں کی روحانی اور جسمانی تعلیم و تربیت جیسے فرائض فرض ہوتے ہیں ۔تاکہ بچے بڑے ہو کر اپنی قوم اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں ۔

یقینا ہر والدین کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے اعلی تعلیم و تربییت حاصل کر سکیں ۔وہ اس فرض کو نبھانے کے لیے بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔وہ اکثر خود کلام ہو کر اس بات کا قول و اقرار کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی کسر باقی نہ رہے ۔اس امر کے باوجود بھی یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نے اپنا فرض سوفیصد نبھایا ہو ۔پھر بھی بعض مقامات پر کمزوری ، نقائض ، نکتہ چینی اور بے بسی جیسے نکات رہ جاتے ہیں ۔

یہ بات حقائق پر مبنی ہے کہ ایک باپ کی شفقت کا سایہ طویل عمری تک بچوں کے سر پر رہتا ہے ۔تقریبا دنیا کے ایک سو گیارہ سے زائد ممالک ہر سال باپ کی عظمت اور عزت و وقار میں اضافے کے لئے یہ دن قومی اور بین الاقوامی سطح پر مناتے ہیں ۔ان کے منشوری نکات میں باپ کی عظمت، محنت، اخوت ، جذبہ ،قربانی ، اور ان لمحات کو جو والدین نے اپنی اولاد کے لئے صرف کیے ہوتے ہیں ۔انہیں ناقابل فراموش یادوں کی مالا میں پرو کر زبان ذد لایا جاتا ہے اور بچوں کو اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کے والدین نے ان کے لیے کون کون سی قربانیاں نہیں دیں ۔

یہ دن بچوں کی روحانی اور جسمانی پرورش کی یاد کا خوبصورت دن ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بچوں کے خواب والدین کی دعاؤں اور محنت کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے ۔ اور دنیا کا کوئی ایسا رشتہ والدین کی جگہ نہیں لے سکتا کیونکہ اہداف و مقاصد کے لئے محنت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔جسے صرف والدین ہی پورا کر سکتے ہیں ۔کیونکہ کوئی دوسرا انسان دوسروں کے بچوں کا اتنا بڑا بوجھ اٹھا نہیں سکتا ۔
یاد رکھیں!

یہ ایک فطری الجھن ہے جس میں خدا نے باپ کے دل میں اولاد کے لیے کوٹ کوٹ کر محبت بھری ہوتی ہے ۔وہ اس بات سے انکار کرنا بھی چاہیئں تو وہ ہو نہیں سکتا ۔کیونکہ خدا نے اس رشتے میں خون میں تڑپ و قربانی کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ۔جو والدین کے قلب و ذہن پر ہر وقت دستک دیتا ہے اور اس بات کا شدت سے احساس دلاتا ہےکہ اپنے بچوں کے لئے کچھ کرو ۔اس ضمن میں ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔بلاشبہ یہ ایک الگ ایشو ہے کے ہر انسان کی ذہنی جسمانی قوت ارادی ایک جیسی نہیں ہوتی۔

یہ قدرت کی تقسیم کاری ہے جس میں اور آپ کوئی دخل اندازی نہیں دے سکتے ۔کسی کے پاس کم روپیہ پیسہ ہے تو کسی کے پاس زیادہ ۔ حالات حاصلہ افزائی بھی کرتے ہیں اور حوصلہ شکنی بھی ۔ہماری زندگی میں دونوں عناصر بیک وقت ایک ساتھ چل رہے ہوتے ہیں ۔وقت کسی کو روپوش اور کسی کو آسمان پر بٹھا دیتا ہے۔

لیکن والدین کی روشن خیالی حالات و واقعات پر غالب آجاتی ہے ۔ان کی کوششیں اور قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔انہیں ہمیشہ پھل لگتا ہے اور جو درخت پھل دیتا ہے وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا ۔اسی طرح والدین کی شفقت اور محبت کا سایہ عمر بھر اولاد کے ساتھ رہتا ہے وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے ۔

اس اثباتی اور ہمہ گیر حقیقت کو ہر بچے کو تسلیم کرنا چاہیے کہ میرے والدین نے میری تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔چونکہ یہ جرات مندی اور احساس قلب کا خوبصورت شگوفہ ہے جس کے پھول اور کلیاں ہر اولاد کے دل میں کھلنی چاہیے ۔

ہو سکتا ہے انسان کو کل وقت اجازت دے یا نہ دے ۔لہذا وقت کو غنیمت اور سچائی کو زور بازو جان کر ان کی محبت و عظمت کے لئے کچھ میٹھے بول ضرور بولنے چاہیے ۔ان کی چاہتوں ،عقیدتوں ، امنگوں، شفقتوں ، وفاؤں اور قربانیوں کا اقرار کرنا چاہیے ۔تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ بچوں کے قلب و ذہن میں احساس کی روح زندہ ہے ۔کیونکہ احساس وہ رشتہ ہے جو سب رشتوں پر سبقت لے جاتا ہے ۔اور جو اس رشتے میں اپنی زندگی پرو لیتا ہے وہ ہمیشہ پر نمکین رہتا ہے ۔

وقت قدرت کا انمول تحفہ ہے جس میں زندگی کے دن ، مہینے ،سال ،صدیاں چپکے سے بہ جاتے ہیں ۔وقت گزرتے پتہ ہی نہیں چلتا بعقول شاعر :

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

کائنات کے حسن و جمال میں وقت خوبصورت تحفہ ہے جو اپنی قدر و قیمت میں نایاب ہے ۔یہ باتوں، یادوں ، خیالوں ، اور تمناؤں کی خوب بارش برساتا ہے ۔لیکن یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے یہاں احساس جاگتا ہو اور ضمیر باآواز ہو وہاں جسم و روح میں تروتازگی اور شگفتگی کے پھول کھل جاتے ہیں ۔قانون قدرت لا تبدیل ہے اور وہ انسان کو احساس دلاتی ہے کہ وقت موسم اور ر شتے دل کی دھرتی پر اپنی کیفیت کا حال چھوڑتے ہیں ۔اور ہمیں اس بات کے لئے پندونصاح کرتے ہیں کہ والدین کے بغیر زندگی روکھی ،سوکھی، ویران ، اور بنجر زمین جیسی ہوتی ہے ۔لیکن ان کی موجودگی میں احساس، سایہ ، اور تپش اس انمٹ حقیقت کا غماز ہے کہ ان کے دلوں سے محبت کبھی ختم نہیں ہوتی وہ اولاد کی لاکھ نافرمانیوں کے باوجود بھی محبت کا ہاتھ بڑھاتے ہیں ۔اور گرتے ہوئے کو سنبھال کر اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ خدا نے انہیں ایک ایسے احساس سے پر نمکین کیا ہے جس کا ذائقہ اور تاثیر کبھی ختم نہیں ہوتا ۔بے شک حقیقت ہر زمانے میں زندہ رہتی ہے نہ وہ تبدیل ہوتی ہے اور نہ وہ مٹتی ہے ۔

والدین نعمت خداوندی ہیں ۔ان کی محبت تپش اور سائے کو ہر روز محسوس کرنا چاہیے تاکہ نہ ان کے دل برے ہو ں اور نہ ہماری محبت ٹھنڈی پڑے ۔
لیکن حالات و واقعات کے تناظر میں اس بات کا تیزی سے خدشہ بڑھ رہا ہے کہ بے دینی کے بڑھ جانے سے بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی اور بچے اپنے والدین کے نافرمان بن جائیں گے ۔وہ ان کے جذبات اور احساسات کو مجروح کریں گے ۔آج وقت کے ساتھ بچوں کی ترجیحات میں فرق آگیا ہے اور جب ترجیحات ہی بدل جائیں تو وہاں عزت کا وہ معیار نہیں رہتا جو پہلے ہوتا ہے ۔ آج وقت نے نافرمانی ،تنگ نظری ،بداخلاقی ،بدنصیبی، اور بدکرداری کی گھنٹی بجائی ہے ۔کون اس آواز کو سن کر تبدیلی کی طرف قدم بڑھائے گا ۔ہاں وہی خوش قسمت ہو سکتے ہیں جن کے دلوں میں والدین کی عزت و تکریم کا احساس پیدا ہو جائے ۔وہ اپنے والدین کی قربانیوں ،محبتوں ،خوشیوں، نشانیوں اور وفاؤں کو یاد کر کے ان کی عزت کا معیار دہرا کر دیں ۔

اگر اس بات کو دلجمعی سے سوچا جائے اور رجوع لایا جائے کہ بچوں کو تحفظ ،احساس ،محبت ،نمونہ ،لگن اور وفا تو والدین کے صلب سے ملتا ہے ۔ جن کے باعث بچوں میں کرداری ،تاثیر ی، تعبیری اور تعمیری جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ خوش نصیبی، خوش بختی، خوش اخلاقی ہر انسان کو اس کے وراثتی جین سے ملتی ہیں ۔اور یہ جین آپ کی نسلوں کی آبیاری میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے آپ دوسروں پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور دوسرے آپ سے کس طرح متاثر ہوتے ہیں ؟
بیشک ان باتوں کا اطلاق انسان کے وصف و وزن اور تعلیم و تربیت کی اور والدین کے چھوڑے ہوئے نقوش کی بدولت ملتا ہے ۔یقینا دنیا میں ہر والدین اپنے بچوں کے لئے سہانے خواب اور تعبیر ی سپنے دیکھتا ہے لیکن وقت کیا رنگ دکھاتا ہے کوئی نہیں جانتا کہ تقدیر کس سمت اپنی کروٹ بدل لیتی ہے ۔کیونکہ وقت حالات اور موسم بدلتے پتہ نہیں چلتا ۔یہ پل بھر میں انگڑائی لے لیتے ہیں ۔بہرحال انسان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ وقت کی بغاوت ہے یا خون کی سرکشی۔ اس بات کا خود فیصلہ کیجئے اور خود اس فیصلے سے محفوظ ہو جائیں ۔یہ وقت کی پکار ہے کہ ہم اپنے والدین کی عزت و تکریم بڑھا کر ان کی خوشیوں میں اضافہ کریں ۔لیکن وقت ہمیں اس بات کی بھی تصویر دکھاتا ہے کہ بچے کے اس تیزی سے مصنوعی رشتوں کا جال بچھا تے ہیں اور پھر اپنے منہ سے تر کی ہوئی باتیں پوری بھی نہیں کر پاتے ۔میرے نزدیک یہ گمراہی کی ٹھوس حالت ہے ۔اور جب انہیں وقت کے ہاتھوں ٹھوکر لگتی ہے تو وہ اوندھے منہ گر پڑتے ہیں یہ بوکھلاہٹ کی کھلی تصویر ہے ۔

اگر بچوں کا دل والدین کی محبت سے خالی ہو جائے تو وہاں اونٹ کٹارے اگ آتے ہیں جو والدین کی امیدوں پر پانی پھیر دیتے ہیں۔یہ کیسی زبان ہے جو اجنبی رشتوں کے پہاڑ ے پڑتی ہے اور جب وہ بوڑھے ہوتے ہیں تو انہیں اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں ۔اس ضمن میں ہم نے ثقافتوں کو فروغ دیا لیکن ہم نے خدا کے احکامات کو ٹھکرا دیا ۔یہ انسان کی کیسی حالت زار ہے کہ وہ ثقافتوں کا دلدادہ بن گیا اور اپنے خدا کا نافرمان ۔ہماری دنیا ان گنت مسائل سے دو چار ہے۔ یہاں انسانی قدروں پر بھی نت نئے قوانین تشکیل پا رہے ہیں ۔اور ہم سب کو یہ سوال سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایک باب جس نے اپنے بچوں کو ایک چھت کے نیچے پالا ہوتا ہے ۔کل وہی بچے بڑے ہو کر انہیں اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں ۔کیا یہ بچوں کا غیر فطری وطیرہ اور غیر شائستہ رویہ نہیں جو اپنے والدین کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے ۔

آج وقت دہائی دے رہا ہے کہ ہم اپنے والدین کی عزت کریں اور جب تک ہماری سانسیں وجود تن ہیں ان کی محبت اور شفقت کو کبھی بھی فراموش نہ کریں ۔یاد رکھیں رشتوں کا تقدس بحال رکھیں یہ وہ وٹامنز ہیں جو مشکلات میں کام آتے ہیں ۔بے شک ہر انسان کو عزت ،حیات، اور دولت خدا سے ملتی ہے ۔لیکن انہیں پانی کے لئے خدا کے وعدوں کی پاسداری کرنا پڑتی ہے جن کی بابت خدا نے ہم کو حکم دیا ہے ۔یہ ہمارا مزہبی، روحانی، اخلاقی اور سماجی حق بنتا ہے ۔ کہ ہم باپ کے عالمی دن پر ان کی عزت کی عہد تجدید کریں۔بلکہ ہر روز ان کی ضروریات زندگی اور احساسات کو بھی تحفظ دیں ۔

چونکہ عمر درازی کا راز والدین کی عزت میں پوشیدہ ہے ۔اور جو بچے اس راز کو اپنی زندگی میں افشاں ہونے کا موقع دیتے ہیں وہ عمر درازی اور ناقابل یقین برکات و فضائل پاتے ہیں ۔
شریعت میں یہ پانچواں حکم ہے کہ
" تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کر تا کہ تو جس ملک میں رہتا ہے تیری عمر دراز ہو "
واہ یہ کیسا وعدہ جس میں عمر درازی کا راز شامل ہے ۔اے ایمان والو یہاں سچائی کھڑی ہو کرپکار رہی ہے کہ آؤ مجھے لے لو اور اپنے خوابوں ارادوں اور جذبوں کو حقیقت میں بدل لو۔
آج موقع اور دن اچھا ہے لہذا دیر نہ کیجئے !
اس سے قبل بہت دیر ہو جائے اپنے دلوں سے تمام رنجشیں، دوریاں، فاصلے، نفرتیں، عداوتیں اور نجاستیں مٹا کر اپنے والدین سے اظہار محبت کریں ۔
تحریر و تحقیق:
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد (واہ کینٹ)
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید