دھاندلی دھمکی دستخط

عارف پرویز نقیب کالمز مشاہدات: 33 اسنادِ پسندیدگی: 1

دھاندلی دھمکی دستخط
انتخابات کیا ہوئے کہ ملکی سیاست میں گویا پہنچایا گیا بھونچال اگیا بڑے بڑے برج جو گرے سو گرے مگر دھاندلی کا شور شرابہ بھی مچا رہا اور مچا ہوا ہے ہر ایک جماعت دوسری پر دھاندھلی کے روایتی الزامات عائد کر رہی ہے احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے اس میں کچھ شبہ نہیں کہ دھاندلیوں کے باعث مختلف صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقوں سے جو اراکین منتخب ہوئے ہیں ان کی جانب سے بھی دھاندھلی دھاندھلی کا شور مچا ہوا ہے ہر روز مختلف جماعتوں کے نمائندے پریس کانفرنس کرنے بیٹھ جاتے ہیں نگران حکومت فوج اور الیکشن کمیشن پر الزامات روک کے نہیں رکتے پیپلز پارٹی تو خیر اپنا کھویا ہوا وقال بہار نہ کر سکی وقار بحال نہ کر سکی اور شاید ائندہ ہونے والے برسوں میں بھی وہ اپنی گزشتہ کارکردگی کے باعث ملکی سیاست میں شاید ہی کوئی نمایاں کردار ادا کر سکے عوام نے تین صوبوں میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کا دعوی کرنے والوں کو یکثر مسترد کر دیا محض صبح سندھ میں وہ صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکی سندھ میں اس کے جیتنے کے مسئلے پر مختلف ارا کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر ہماری نظر میں سندھ میں اس کی جیت کا اصل سبب یہ ہو سکتا ہے کہ صوبہ سندھ خصوصا اندرون سندھ میں لوگوں کے پاس دوسری جماعتوں کو ووٹ دینے کے لیے متبادل موجود نہیں ہے لوگوں کی اکثریت وڈیروں کے زیر اثر ہے ہر چند کے مسلم لیگ فیس سندھ میں موجود ہے ایم کیو ایم بھی اپنا اثر رسول رکھتی ہے مگر مسلم لیگ فی محض اپنے مریدوں اور ڈاریوں پر تکیہ کرتی ہے اور دور دراز کے علاقوں میں ان کی پہچان نہیں بن پائی ایم کیو ایم کا اسرو رسوخ محض شہروں خصوصا کراچی حیدراباد نواب شاہ اور سکر تک محدود ہے اندرون سندھ کے بڑے شہروں اور ماسوائے میرپور خاص کے ان کا نام اور کام دونوں ہی نامعلوم ہیں نیشنل پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ سے چند نشستیں حاصل کی ہیں مگر انہوں نے بھی مسلم لیگ نون میں انظمام کا اعلان کر دیا ہے مگر پیپلز پارٹی کا وہ اثر جو بھٹو خاندان کی روایتی جڑ سے منسلک ہے وہ ابھی تک موجود ہے نیز مسلم لیگ نون نے اگرچہ سندھ کے چند ایک شہروں میں جلسے کر کے سندھ کے عوام کو اپنے حق میں ووٹ ڈالنے پر اکسایہ ضرور اور گزشتہ حکومت کی کارکردگی کو اڑے ہاتھوں لیا لیکن ان کو خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکی دوسری پاکستان کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھرنے والی جماعت بھی سندھ میں خود کو منوانے میں ناکام رہی وہ بھی محض شہروں تک محدود رہی اور کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقوں خصوصا حلقہ 250 سے اپنی کامیابی کا یقینی دعوی کرتی ہے مگر دھاندھلی کے باعث اپنی شکست کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ایم کیو ایم کے رہنما اس پر بڑے چھین ہو رہے ہیں اور اس بات پر ہلکا دوستوں 50 کی نشستوں پر اپنی کامیابی کو خود پر عوام کا اعتماد کر دیے ہوئے دوبارہ پولنگ کروانے پر اگرچہ ابتدائی راضی نظر نہ اتے تھے مگر بعد میں انہوں نے سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے ہر طرح کی نگرانی میں دوبارہ پولنگ کا اندیہ دے دیا مگر دھاندلی کے مبینہ الزامات کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے محض 43 پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کی اجازت دے دی ہے جہاں تک دھاندلی کا سوال ہے تو شواہد بتاتے ہیں کہ دھاندلی ہی نہیں ہوئی بلکہ ان حلقوں میں یا پولنگ اسٹیشنوں پر جہاں ایم کی ایم کے علاوہ دوسری جماعتوں کے ووٹرز موجود تھے بیلٹ باکس اور بیلٹ پیپر ہی نہیں پہنچائے پہنچنے دیے گئے یا پھر انتخابی عمل میں اس قدر تاخیر سے شروع ہوا کہ ووٹروں کو واپس جانا پڑا جس کے باعث جماعت اسلامی نے الیکشن کے پہلے ہی پہلے دن ہی صورتحال کے پیش نظر الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا دوسری جانب ایم کیو ایم پر لگنے والے الزامات کو بنیاد بنا کر متحدہ کے قائد الطاف حسین نے جو خطاب کیا وہ سرا سے دھمکیوں پر مبنی تھا انہوں نے ہر ایک کو برا بھلا کہنے کی بجائے براہ راست الیکشن کمیشن کو رتاڑا اور صحافیوں کی خبر بھی ٹھیک طرح سے لے ڈالی اور انہیں کتوں سے مشابہ قرار دیا کہ وہ کارواں پر بھونکتے ہیں مگر کاروان چلتا رہتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ واشگاف الفاظ میں علیحدگی کا مطالبہ بھی کر دیا جس سے عوامی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی بعد ازاں اپنی جوش خطابت میں ذرائع ابلاغ کے مالکان کو بھی دھمکیوں پر رکھ لیا اور ڈھکے چپے الفاظ میں اپنے کارگان کو خبردار بھی کر دیا کہ کل تمہیں کیا کرنا ہے ان کا کہنا تھا کہ کل کو اگر کسی کا ماتھا گھوم گیا اور اس نے کسی کو ٹھوک دیا تو الزامات ایم کیو ایم اور الطاف حسین پر ا جائے گا ہم اس کے ذمہ دار نہ ہوں گے امران اب انے والی حکومت کا فرض ہے کہ وہ سندھ میں ایم کیو ایم کے تحفظات کے پیش نظر کیا عمل تیار کرتی ہے جماعت اسلام جماعت اسلامی اور مسلم لیگ کاف کے ساتھ کس طرح الحاق کر کے سندھ میں بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کو ساتھ لے کر چلتی ہے یہ طے شدہ بات ہے کہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ الحاق کر کے وفاق کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہو سکتی ہے پیپلز پارٹی کبھی نہیں چاہئے گی کہ وفاقی حکومت ملک کی وفات وفادات میں کیے گئے تحریک انصاف خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومت قائم کرے گی جہاں اسے مولانا فضل الرحمن کے منتخب اراکین کی صورت میں بڑی سخت حزب اختلاف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جاتے جاتے ایک اور خبر بھی دیکھتے چلیے کہ لور دیر خیبر پختون خواہ کے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی کے 95 میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی حق سے محروم کر دیا گیا ہے جوں تو یوں تو پورے خیبر پختون خواہ میں عورتوں کے وہ ڈالنے پر قدغن لگائی جا رہی ہے جاتی رہی ہے مگر لوئر دیر کے اس حلقہ میں جہاں خواتین ووٹروں کی تعداد لگ بھگ 47 ہزار اور 280 ہے کہ اکثر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس کا باضابطہ اعلان کیا گیا اور اس اعلان کی روشنی میں جو فیصلہ ہوا اس پر مسلم لیگ نون جماعت اسلامی جمیعت علماء اسلام ف پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف عوامی نیشنل پارٹی نے دستخط کر دی ہے جماعت اسلامی یا جمیعت علماء اسلام کی حد تک تو یہ بات مانی جا سکتی تھی مگر پی پی پی مسلم لیگ نون اور پی ٹی ائی نے دستخط کیوں کیے
واپس جائیں