شراب یہ سالک اور فلاؤ محبوب

عارف پرویز نقیب کالمز مشاہدات: 18 اسنادِ پسندیدگی: 0

شراب یہ سالک اور فلاؤ محبوب
شراب کے بارے میں لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا مذہبی و سیاسی رہنماؤں نے اس پر اپنی اپنی عقل و علم کے مطابق سیر حاصل گفتگو کی ہے مزمان مضامین لکھے گئے کالم بھی تلاش گئے مگر شراب کی جو بندوق اقلیتوں کے کاندھے پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے وہ جوں چل رہی ہے اس میں قصور کس کا ہے یہ کوئی بحث طلب موضوع نہیں ہے مگر مقام ماتم ہے کہ جب بھٹو مرحوم نے چراغ کو جائز قرار دینے کے لیے اقلیتوں کا سہارا لیا تو یہ سب جانتے تھے کہ شراب پیے گا کون اقلیتوں میں اتنا دم خم کہاں تھا یا اتنی امدنی کہاں ہے کہ وہ روزانہ خم کے خم اٹھتے رہیں اسلام میں شراب اگر حرام تھی تو نیتوں پر لاگو کرنے کا مقصد کیا ہے قوانین و ائین تو سب کے لیے برابر ہیں اگر کوئی شخص قتل یا ڈاکہ زنی یا کسی بھی غیر قانونی و غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے تو کیا قانون یا ائین اقلیت اور اکثریت میں فرق کرتا ہے کہ قتل کرنے پر اقلیت کی سزا مختلف ہے اور اکثریت میں فرق کرتا ہے کہ قتل کرنے پر اقلیت کی سزا مختلف ہے اور اکثریت کی مختلف تو پھر سوال یہ ہے کہ جب شراب کو حرام ہی قرار دیا جا رہا تھا تو اقلیتوں کو رعایت کے ضمن میں دی گئی یقینا اس کے پیچھے وہ کلیسیائی رہنما تھے جو چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کے قائل ہیں انہوں نے شاہ کی مصاحبت کا حق ادا کرتے ہوئے اقلیتوں کے لیے شراب کو جائز قرار دلوایا جبکہ مسیحت چراب کی نہ تو تائید کرتی ہے اور نہ ہی اسے پینے کی اجازت دیتی ہے بلکہ جہاں اسے اسلامی نقطہ نگاہ سے ام الخبائث کہا گیا ہے وہاں بائبل مقدس یہ بھی بیان کرتی ہے کہ بالاخر یہ سانپ کی طرح کاٹتی اور افائی کی طرح ڈستی ہے کہ وہ چراغ نوشی شراب استعمال کر سکتے ہیں مگر اس قانون کی قطعی ضرورت نہ تھی اور قانون میں درج کی جانے والی بات تھی کہ ایک اقلیتیں اپنے فریضہ کی ادائیگی کے لیے شراب کا استعمال کر سکتی ہیں نعوذ باللہ کیا مسیحیت کی عبادات میں شراب کا استعمال ہوتا ہے اب رہی اقلیتوں کے ہی شراب پینے کی بات تو جب یہ قانون بنایا گیا تھا تو بھٹو مرحوم اگر اسلام کے اتنے ہی شدائی تھے تو سب سے پہلے مری بریوری کو بند کرواتے اور ملاؤں کو خوش کر دیتے مگر وائے ناکامی قسمت کے بھلا شراب کے ایسا کیوں کر یہ حکم صادر فرما سکتے تھے خود مولانا کوثر نیازی جو مذہبی امور کے وزیر تھے مولانا وسکی کے نام سے مشہور ہوئے اگر پردہ ہی اٹھانا مقصود ہوتا تو جانے کتنے نام یہاں پر گنوائے جا سکتے ہیں کہ اس میں بھی کلبوں اور جم خانوں میں جام پر جام لونڈ مارنے کا نون مانے کا سلسلہ جاری و ساری تھا مگر فیل وقت ہم پردہ نشینوں کو پردہ نشینی رہنے دیتے ہیں فقط شراب یہ بات کرتے ہیں بھٹو مرحوم کے بعد ضیاء الحق کا دور امریت ایا تو انہوں نے اس موقع کی چال چلی کے گویا اسلام کے نفاذ کے بابا ادم وحی کہلائیں گے مسلم لیگ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کا فریضہ انہی کا کارنامہ ہے اور اقلیتوں کے لیے 295 بی سی کی تلوار بھی انہی کی ایجاد ہے نیند خواتین کے حقوق غصب کرنے کا سہرا بھی انہیں دیے تھے جہاں دیگر قوانین میں ترامیم کر گئے اس پر خط تنسیخ پھیر جاتے کہ مسیحت ایک الہامی مذہب ہے اور اسلام اور مسیحت دونوں کے ہاں اس کے استعمال کی ممانعت ہے تو شراب اقلیتوں کے لیے نہیں چلے گی لہذا شراب ملک عزیز میں قطعی طور پر ممنون قرار دی جاتی ہے مگر راتوں کو ایسا کر سکے اور نہ ہی کر سکتے تھے بلا اخر بالا ہی بالا دنیا سے سدھار گئے اور ایسا گئے کہ ناش کے نام پر محض دانتوں کو دفنا کر رسمیں جنازہ دبا دی گئی شاید یہ قدرت کا وہ انتقام تھا کہ شراب کے پورے ملک بلکہ ہر قسم ناقص پر حرام کیوں نہ لیا اب ذرا ہم اپنے مقبول رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے بہبود ابادی جناب جے سالک کی طرف اتے ہیں موصوف نے اپنے اخباری بیان میں فرمایا ہے کہ حرام شراب سے ہونے والی امدنی حرام ہے اس سے تو سارا بجٹ حرام ہو جائے گا شراب پر لاگو ایکسائز ڈیوٹی کی ساری رقم اقلیتوں کی فلاؤ بھرپور بہبود پر خرچ کی جائے گی و جے سالق صاحب واہ اپ تو بڑے کمال کے مسیح نکلے اور دور کی کوڑی نکالی ہے ایک اپ نے شراب کو حرام قرار دیا بلکہ بجٹ کو حلال نہیں رہنے دیا اس پر اپ نے ام الخبائث سے ہونے والی امدنی کو اقلیتوں کی بہبود پر خرچ کرنے کی جو پنچ لگائی ہے وہ کمال کی ہے اپ ایک زیرو کو صاحب فہم سیاستدان ہیں اپ کے کئی مزاحیہ خاکے اور ڈرامے ریکارڈ کا حصہ ہیں مگر اپ مگر اپ کی عقل اور اس وقت کہاں گئی تھی جب یہ بیان دے رہے تھے یعنی شراب حرام ہے اور امدنی بھی حرام ہی گنی جائے گی تو بہتر ہے کہ حرام کی امدنی اقلیتوں پر خرچ کی جائے دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اقلیتیں ہیں ہی اسی قابل کے ان پر حرام امدنی خرچ کی جائے اس طرح اپ نے جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے اور فرمانے والے فرما گئے ہیں کہ اس قانون پر دستخط کروانے کے لیے قاتلق اور پروٹیسٹین رہنماؤں کو کروڑوں روپے ادا کیے گئے تھے جو دولت کے پجاریوں نے اپنی عاقبت کو خراب کی ہوگی مگر موجودہ دور کے ان یہودات کے جوتیوں نے وصیت کو بھی داغدار کر کے اس اشراب پینے والوں کو مذہب بنا دیا یوں تو ڈرگ انفورسمنٹ ایکٹ کے تحت یہ جھوٹ صرف غیر ملکی افراد کے لیے تھی کہ سر جاتا ہے ان کے دور اسلامی میں بھی مری بریوری سانوں لاکھوں پوائنٹ شراب تیار کرتی رہی ان کے دور میں دفاعی اداروں کے مسیحیوں میں شراب ممنوع قرار نہ دی گئی اگرچہ ضیاء الحق بھی اسلام کے اتنے دعویدار تھے وہی اس قانون کو سب کے لیے برابر قرار دے جاتے مگر اسلام کے اس دعوی دار نے بھی ادھر نگاہ نہ کی جہاں اتنے سال مارشل لا لگا کر ملکی معیشت کا بیڑا غرق کیا تھا جہاں 90 دن کی شاہی کا کہہ کر 11 سال گزار دراصل حکومت کو نیا راستہ دکھایا ہے کہ جس قدر بھی ممکن ہو جہاں سے ممکن ہو اور ام کی امدنی کٹی کیجئے اور اقلیتوں پر خرچ کر دیں اس طرح حکومت کو اپنے پنجوں سے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑے گا اگر حکومت محترم جی سالک صاحب کے مشورے کو سنجیدگی سے قبول کرے تو یہ سالک کو ہار پہنا کر عیوان بالا تک لے جائیں اور رہ گئی ان کے مسلک کی بات تو دائرہ مسیحت سے ان کا اخراج خود بخود ہو جائے گا واہ یہ سالک واہ
واپس جائیں