انتخابی عمل اور مسیحیوں کی ذمہ داری

عارف پرویز نقیب کالمز مشاہدات: 21 اسنادِ پسندیدگی: 0

انتخابی عمل اور مسیحیوں کی ذمہ داری
دنیا میں جہاں کہیں بھی امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوا اور جمہوری اداروں نے اس کا سیاسی حل بیلٹ باکس ہی سے نکالا ہے امریکہ میں 1946 تک نیگروس کے ووٹروں کی تعداد میں 35 ہزار تھی سیاسی اور مذہبی اکابرین نے ان کا سیاسی شعور اجاگر کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا نتیجتا 1952 تک ان کی رجسٹریشن ایک لاکھ اور 35 ہزار تک پہنچ گئی اور اسی دہائی میں مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فارم باشندوں کے حق میں اواز اٹھائی اور اس کو باقاعدہ تحریک کی شکل دے دی اور اج دنیا کا سب سے طاقتور حکمران سیافام اپنی صدارت کی دوسری مدت پوری کر رہا ہے یہ مسئلہ بیلٹ باکس کے ذریعے ہی حل ہوا مشرقی تیمور کا مسئلہ بھی سیاسی طور پر انتخابی عمل کے تحت بیلٹ باکس کے ذریعے ہی حل ہوا دیگر کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر موضوع کی طوالت کے باعث خصوصا پاکستانی مسیحیوں کے لیے اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنی رجسٹریشن پر توجہ دیں بلکہ بلا شبہ مسیحی پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں مگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوؤں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ ہندو اکابرین اپنے عوام کو بچے کی پیدائش پر سرکاری سرٹیفکیٹ حاصل کرنے اور اس کی رجسٹریشن کے لیے ذہنی اور شاعری پر تیار رکھتے ہیں جبکہ اج تک کسی بھی مذہبی اجتماع یا گرجا گھروں میں پادری صاحبان کو اس زمن میں کوئی بات کہتے نہیں سنا گیا ہم بڑے بڑے کریوسڈ اور کنونشن کروانے کو روحانی ترقی کا باعث قرار دیتے ہیں مگر روحانی ترقی کے ساتھ سماجی اور معاشرتی اور معاشی ترقی کس طرح ممکن ہے اس کا کوئی حل گرجا گھروں سے ممبروں پر چیخنے چلانے والوں نے کبھی نہیں دیا روحانی بیداری یقینا ضروری ہے مگر روحانی بیداری کی اڑ میں لاکھوں روپے کمانے والی اور لاکھوں کی امداد حاصل کرنے والے مگرمچ اور ان کے ساتھ لگے تو فعلیہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سماجی سطح پر ہم عوام کو پستی کی جانب دھکیل رہے ہیں ہر کام کو خدا پر ڈال دینے کا پیغام دینے والے بھول جاتے ہیں ہمیں اپنے حقوق کے لیے اواز کس طرح اٹھانی ہے اور کیوں اٹھانی ہے اور اس کے لیے سب سے پہلا قدم کیا ہونا چاہیے اگر کسی سے سوال کیا جائے کہ بھئی اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں تو کیا نتائج نکلیں گے تو جواب یہی ہوگا کہ ہماری کون سنتا ہے ہمارے مسئلے حل ہو ہی نہیں سکتے ہم اپنے ساتھ متاسبانہ رویوں کا رونا تو روتے ہیں بے شک متاسبانہ رویے موجود ہیں مگر اس ضمن میں خود ہم نے بھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے جب ہمارے ساتھ امتیازی قوانین کے تحت کوئی زیادتی ہوئی ہے تو ہم ذرائع ابلاغ کی توجہ ہماری جانب ہوتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ مسلم امہ علماء اور سیاسی اکابرین بھی اس کی مذمت کرتے ہیں اور مسلم غیر سرکاری تنظیمیں اور ملکی ارباب اختیار ہماری اشک شوئی بھی کرتے ہیں مگر شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ ہم نے ایسے کسی عمل کو عملی جامہ پہنایا ہو ہزارہ کمیونٹی ہزارہ کمیونٹی کا واقعہ پیش ایا تو کئی مسیحی شخصیات کو ان کے ساتھ اظہار یکجاتی کے لیے بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا سانحہ عباس ٹاؤن ہوا تو کسی مزید تنظیم یا کلیسیا نے ان کے ساتھ جا کر اظہار ہمدردی نہیں کیا شاباش کلوری کیرزمیٹک چرچ کی روح رواں محترمہ ہیلن سلیم اور ان کے خاوند جناب ارنس سلیم کا کہ وہ واحد کلیسیاتی جس نے نہ صرف سانحہ عباس ٹاؤن کے متاثرین کے ساتھ ان کے ہاں جا کر اظہار ہمدردی افسوس کیا بلکہ متاثرین میں اشیائی ضرورت بھی تقسیم کی مگر ہمارے بڑے مگر مچھوں کو یہ ہوش نہ ایا کہ اگر ہم پر زیادتی کی صورت میں ان کی اواز ہمارے لیے اٹھتی ہے تو پھر ہم کو بھی ان کی مشکلات و مصائب میں اظہار یکجہتی کا فرض نبھانا چاہیے جہاں تک ہمارے ساتھ جبر و زیادتی کا تعلق ہے اپنی جگہ مگر اس کے لیے کلیسیائی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے بے شک سیاسی شاور رکھنے والے اس بات کو اگے لاتے ہیں کہ قانون تو سب کے لیے خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم بے شک ایسا ہی ہے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر مسلم شخص سے ایسی کوئی حرکت جو قانون رسالت کے خلاف ہو سرزد ہو جائے تو صرف اسی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے بعض صورتوں میں ایسا بھی نہیں ہوتا اور اس پر مقدمہ چلتا ہے لیکن نہ تو اس کے خاندان کے افراد کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا اور نہ ہی جہاں وہ رہائش پزیر ہو اس علاقے کو جلا دیا جاتا ہے اس کے برعکس کسی مسیحی سے جو عموما ذاتی رنجش ہی ہوتی ہے اگر کوئی خلاف قانون بات یا حرکت ارادی یا غیر ارادی سرزد ہو جائے تو پورے علاقے یا گاؤں کو ہی جلا دیا جاتا ہے اس کے بہتر حل کے لیے ہمیں اپنے ووٹروں کی تعداد بنانی ہوگی تاکہ اسمبلی میں اپنی قوت کا مظاہرہ کر سکیں اگر خود کو منوانا ہے تو ہاتھ پر ہاتھ درے بیٹھنے سے بہتر ہے کہ ہم کو تو دکھ پاکستان میں سب سے بڑی اقلیت کہنے کی بجائے اس کے لیے عملی اقدام کے طور پر ممبروں اور مذہبی الزامات سے اغاز کریں اور اپنی ہر بچے کی رجسٹریشن سرکاری طور پر کروائیں اس کے لیے ہمارے سیاسی نمائندوں کو ہماری رہنمائی اور تعاون کا فرض بھی ادا کرنا ہوگا اگرچہ ابتدائی طور پر اس میں کچھ انجانی سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مگر ثابت قدمی انتہائی ضروری ہے عین ممکن ہے کہ وہ شر پسند عناصر جو مسیحیوں کو سرکاری طور پر بڑی مذہبی اقلیت بنانے میں اب تک اپنا کردار نبھاتے رہے ہیں زیادہ شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہو جائیں مگر ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں پیش قدمی کی ضرورت تھی اور ہے اور اس میں ہی رہ کر ہمیں اپنی سماجی اور سیاسی رتبے اور قدوقامت کو بڑھانا ہے تاکہ ہم ائندہ ہونے والے انتخابات میں بھرپور تیاری اور اپنی پوری عقل و سمجھ اور طاقت کے ساتھ شریک ہوں اور انتخابی عمل کے ذریعے ہی ہم عزادانہ طور پر اپنے نمائندوں کو اسمبلیوں تک پہنچا کر اپنے حقوق کے لیے اواز بلند کرنے کے قابل اور اہل ہو جائیں گے اب یہ فیصلہ کاری پر ہے کہ ہم نے صحیح کہا یا غلط
واپس جائیں