پاکستان پر خلائی مخلوق کا حملہ

عارف پرویز نقیب کالمز مشاہدات: 20 اسنادِ پسندیدگی: 0

پاکستان پر خلائی مخلوق کا حملہ
پچھلے دِنوں بین الاقوامی خبر رساں اداروں اور ذرائع ابلاغ کے توسط سے ایک خبر نے ہلچل مچا دی کہ زمین پر خلائی مخلوق حملہ آور ہونے والی ہے۔ یہ قصہ اور قیاس آرائیاں تو برسوں سے جاری ہیں ، مگر اِس کو تقویت تب ملی جب نظریاتی طبیعات کے ماہر اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب، اے بریف ہسٹری آف ٹائم، منظرِ عام پر آئی۔ اِ س سے قبل مختلف ادارے اِس بات کی کوشش میں رہے کہ کسی طرح خلائی مخلوق سے رابطہ قائم کر لیا جائے مگر کامیابی نہ ملی۔ ماہرِ طبیعات اور فلکیات پروفیسر، برائن کوکسؔ، یہ کہہ چکے ہیں کہ زحل اور مریخ کے چاند ’’بوروپا‘‘ اور ٹائٹن پر خلائی مخلوق کا وجود ممکن ہے۔ برطانیہ کے شاہی ماہر فلکیات، لارڈ ریز نے بھی انکشاف کیا ہے کہ خلائی مخلوق انتہائی حیرت انگیز ہونے کے ساتھ بے رحم بھی ہو سکتی ہے، علاوہ ازیں فلکیات کے بڑے ماہر کارل ساگاںؔ، کو پختہ یقین تھا کہ خلا میں موجود کسی نہ کسی سیارے پر پائی جانے والی مخلوق نہ صرف انتہائی ذہین بلکہ کرۂ ارض کے باسیوں سے ۵۰۰ سال زیادہ ترقی یافتہ بھی ہو سکتی ہے۔
جب ہم یہ خبر لے کر اپنے دوست ولی داد پر اپنے باخبر ہونے کا رعب جمانے پہنچے تو انہوں نے نہ صرف ہمیں انتہا درجے کا بے خبر شخص قرار دے کر خاموش کیا بلکہ ہمیں انسانوں کی صف سے نکالنے کے لیے انہوں نے ہماری بے خبری کو بنیاد بنا کر کئی دلائل دیے جس نے ہماری سٹی گم کر دی نتیجتا ہمارا باخبر ہونے کا زوم تو جھاگ کی طرح بیٹھ گیا مگر ولی داد کی زبان بہرحال چل نکلی کہ انہیں بولنے کا ایک موضوع طرادار مل گیا تھا ہم نے انہیں خاموش کرنے کی ناکام کوشش کے بعد پوچھا کہ پھر اپ خلائی مخلوق کے بارے میں کیا کہتے ہیں انہوں نے انتہائی غصے سے ہمیں دیکھا اور چند خاموشی کے بعد گویا ہوئے کہ احمق ادمی خلائی مخلوق حملہ کرے گی نہیں بلکہ کر چکی ہے اور اس نے ابتدا ملک پاکستان پر حملہ کر کے کر دی ہے یہ سن کر ہمارے حواس گم ہو گئے ہو نہ ہو ولی دال پر کسی اسیب کا سایہ ہے جس کے سبب یہ اول فول بکنے لگے ہیں ہم نے ان کی حالت زار پر اظہار افسوس کرنا چاہا تو انہوں نے ہمیں اڑے ہاتھوں لیا اور حسب معمول ہمارا شجرہ نسب درہم برہم کرنے کے بعد گویا ہوئے کہ بھائی خلائی مخلوق انسانی روپ بھی اختیار کر سکتی ہے اور وہ اس روپ میں پاکستان پر حملے کا اغاز کر چکی ہے ہمارا منہ استجاب سے کھلے کا کھلا رہ گیا ہماری بگڑی ہوئی صورت پر کچھ اچڑتی اچڑتی سی نظر ڈال کر مزید فرمایا کہ تم جو اتنے باخبر ہونے کا رعب جمانے اگئے ہو تمہیں پتہ ہے کہ سٹیفن ہاکنگ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خلائی مخلوق اپنے سیاروں کے وسائل ختم کرنے کے بعد دوسرے سیاروں پر حملہ اور ہو رہی ہے تاکہ ان کے مسائل کو ہڑپ کر سکے تو جناب باخبر صاحب اگر بات مسائل کو ہڑپ کرنے کی ہے تو ہماری موجودہ حکومت یا تو انسانی جامع میں خلائی مخلوق ہے یا پھر خلائی مخلوق سے ساز باز کر کے ان کے نمائندے ہیں جو پاکستان پر قابض ہو گئے ہیں پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کے پاس بنجر زمینوں کو اباد کرنے کے وسائل بھی موجود ہیں مگر یہاں کی عوام دانے دانے کو ترس گئی ہے گندم چینی کپاس اور دیگر اجناس خلا کی طرف جا رہی ہیں عوام کی پہنچ سے انتہائی خورد و نوش دور رکھنے کے لیے صاحبان اقتدار تمام تر حکومتی وسائل استعمال میں لا رہے ہیں عوام بھوکی ننگی ہو کر رہ گئی ہے اس پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ مزید مصائب و الام کا سبب بن رہا ہے مہنگائی ایسی ہے کہ خلائی مخلوق سے باتیں کرنے لگی ہے ہزاروں نوری سال کا فاصلہ طے کر کے انے والی مخلوق نے ہمارے وسائل ہڑپ کرنا شروع کر دیے ہیں بجلی کا بحران پیدا کر کے کئی رینٹل پاور سٹیشن سے کروڑوں ڈالر کھائے جائیں گے جس کے لیے عوام کا خون نچوڑ کر نکالنے کے تمام تر سامان مہیا کر لیے گئے ہیں یعنی 24 گھنٹوں میں اٹھ یا 10 گھنٹے بجلی بھیجو اور بالا 48 گھنٹوں کا وصول کر لو بلوچستان کے قدرتی معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے اسی کو نظر کیا گیا ہے بلکہ کہا جا رہا ہے اور اس کے قدرتی وسائل کو استعمال میں نہ لا کر بدنیتی کا ثبوت یہ دیا ہے کہ کہیں بلوچستان کو بھی خوشحالی کا منہ نہ دیکھنا پڑ جائے دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس لگا کر قیمتیں بڑھانے کا تجربہ پہلے بھی ہو چکا ہے عوام نے خاموشی سے زہر پی لیا اور اب جب کہ عالمی منڈی میں پٹرول کی فی بیرل قیمت 70 ڈالر مزید گر گئی ہے مگر پاکستان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے جہاں سے تیل دریافت ہو سکتا ہے وہاں کھدائی نہیں کی جاتی بلکہ جہاں سے تیل دریافت ہونے کے امکانات کم کم سے کم ہو وہاں کھدائی کروانے کے لیے لاکھوں ڈالر قومی خزانے سے اس لیے صرف کیے جاتے ہیں کہ ان میں سے ہڑپ کرنے کی گنجائش 60 فیصد ہوتی ہے ہمارے زرداری صاحب یقینا اس نادیدہ خلائی مخلوق کے نمائندے ہیں جو دوسرے سے مسائل کو ہضم کرنا چاہتے ہیں دوسری جانب عدلیہ سے پھڈا مول لینا غالبا اسی سلسلے کی کڑی ہے تاکہ ملک خلفشار کا شکار رہے اور کوئی بہتر صورت نکلنے کی امید نہ رہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زرداری صاحب کے خاص بابر عوان کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش ائی کہ 60 کروڑ کا عدد ہی غلط ہے یعنی سوئس بینکوں میں موجود رقم دراصل 60 کروڑ ہیں بلکہ صحیح اعداد گنوائے جائیں یعنی زیادہ بھی ہو سکتے ہیں یا ڈالر دو ڈالر کم بھی ادھر عدلیہ نے اٹھویں ترمیم پر بحث کا اغاز کر دیا ہے جس کے باعث حکومت حکومت وقت دباؤ کا شکار ہے کہ کیا کیا جائے کیونکہ این ار او کا پنڈورا باکس دوبارہ کھل جائے گا لہذا حکومت چاہتی ہے کہ عوام کو مزید مہنگائی میں الجھا کر ان معاملات سے دور ہی رکھا جائے تو بہتر ہے جس کا حل پٹرول اور چینی کی قیمتیں بڑھا کر نکالا جائے گا اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کر کے پاکستان کی 80 فیصد عوام کو ان اٹھ 10 گھنٹوں کی بجلی سے بھی محروم کر دیا جائے گا جو وہ استعمال کر رہے ہیں اگر حکومت کو بجلی کے ضیا کا اتنا ہی خلق ہے تو وہ کنڈا سسٹم کو اس طرح سے ختم کر کے کرے کے ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر ملٹم نسل میٹر نصب کرنا شروع کر دے تاکہ بجلی چوری کے امکانات کم سے کم ہو جائیں جس سے بجلی کے نرخوں میں کمی کے ساتھ ساتھ حکومت کی امدنی میں اضافہ ہو جائے گا جو کہ بجلی متبادل نظام کے لیے قدرتی اور مصنوعی وسائل بڑھانے اور ان کو ترقی دینے کا سبب بھی بنے گا مگر حکومت ایسا نہیں کرے گی کیونکہ جہاں رحمان ملک بابر عوان فیصل رضا عابدی فرضیہ وہاب اور محمود شاہ قریشی اور دیگر کئی طفیلیے انسانی جامع میں صدر صاحب کی لوٹ کھسوٹ سے حصہ پانے والوں میں شامل رہیں گے وہاں وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا دوسری جانب حکومت شمالی علاقہ جات میں فوجی کاروائیوں کو رکوانے کے لیے کوئی سیاسی اقدامات اٹھانے سے اس لیے گریزاں ہے کہ فوج کو الجھا کے رکھنا ہی بہتر ہے مگر اب عوام کا کیا کیا جائے جو اب اپنے حاکموں سے نالا دکھائی دیتی ہے اور عوام کا رد عمل چھوٹے چھوٹے احتجاجوں سے شروع ہو چکا ہے جو کسی نہ کسی دن پھٹ پڑے گا حکومت ہر روز اس بات کا پروپیگنڈا ذرائع ابلاغ کے توسط سے کرتی رہتی ہے کہ سابقہ عامر نے یہ کہا سابقہ عامر نے وہ کہا وہ کیا مگر اے میرے حکومتی اہلکاروں کیا اپ نے تو صورت مزید خراب کر دی اگر عامر برا تھا تو عوام کا حق میں امر ہی بھلا تھا کہ عوام پیٹ بھر کر کھانا تو کھا رہے تھے ہم چاہتے ہیں کہ بھائی زرداری اگر عوام عامر کو سرا رہی ہے تو اپ جمہوریت کا لبادہ اتار کر امر بن جائیں تاکہ عوام کو سکھ کا سانس لے قیمتوں میں کمی کرو کر دیجئے اشیائے خرد و نوش عوام کی پہنچ میں لے ائیے ورنہ عوام کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ
شہر میں حاکم افات ا کے بیٹھ گیا
لبوں سے کفر و تارو چلو زباں کھولو
یہ انتظار کی زحمت طوفان لائے نہ لائے
یوں بیٹھ رہنے سے بہتر ہے کشتیاں کھولو
بدل لو اپنے بھی تیور ہوا مقابل ہے
یہی ہے وقت ہے بغاوت کا بادباں کھولو
واپس جائیں