Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
متفرق اشعار و قطعات - فاختہ

متفرق اشعار و قطعات

عارف پرویز نقیب اشعار قطعات مشاہدات: 151 پسند: 0

زہر بنتا ہے بعد میں صاحب
عشق پہلے شراب ہوتا ہے
...
اک نئے انداز سے پھر سُرخرو ہونے کی ہے
ڈوب جانا تو نشانی پھر طلوع ہونے کی ہے
...
اُس کے قریں میں کیسے حرف غلط ہوا
میں جس کی گفتگو کا عنوان تھا کبھی
کس خامشی سے دِل سے وہ میرے گیا نقیبؔ
ہائے جو میرے دِل کا مہمان تھا کبھی
...
زمانہ آیا تھا سننے کو داستاں میری
ترے حصار سے نکلوں تو کوئی بات کروں
دیوارِ یاد میں چُن کر ہے تُو گیا مجھ کو
دیوارِ یار سے نکلوں تو کوئی بات کروں
...
چاند ہوتا تو چھُو لیا ہوتا
چاندنی کو سمیٹ لُوں کیسے
...
قتل و خوں بنیاد بنا کر قرض نبھانے نکلے ہیں 
ہم حُوروں کی خواہش لے کر لنکا ڈھانے نکلے ہیں
...
میں نے کیا تھا یونہی بچھڑنے کا تذکرہ
اُس کو تو جیسے کوئی بہانہ سا مل گیا
...
یہ عجب دیوانگی تھی ، تیرا ہی گھر جان کر
دیر تک میں اپنے دِل پر دستکیں دیتا رہا
...
چلو اک دوسرے پر منکشف یہ راز کرتے ہیں
عطا اس زندگی کو اب نیا انداز کرتے ہیں
کبھی ہم بھی تمہارے تھے کبھی تم بھی ہمارے تھے
ملے ہیں تو یہیں سے پھر نیا آغاز کرتے ہیں
...
بعد مدّت کے ہمیں حرفِ دُعا یاد آیا
آ پڑی ہم پہ قیامت تو خُدا یاد آیا
...
جیسے بھی حالات میں رہنا
بس اپنی اوقات میں رہنا
مار ہی ڈالے گا یہ اک دن
بس اپنی ہی گھات میں رہنا
...
تیری خواہش یہ ہی تو اس نے بھلا یا تجھ کو
اب کیوں کہتا ہے تجھے میں نے بھلا یا کیوں ہے
...
عادتا ً
میرے دل کی حویلی میں
ہوائیں سنساتی ہیں
کوئی آئے کوئی ٹھہرے
یہ ممکن ہو نہیں پایا
مگر میں عادتاً پھر بھی
دریچے کھول دیتا ہوں
...
میرے لئے تو اُس کی محبت گناہ بنی
وہ تو ثواب جیسا تھا مجھ کو ملا نہیں
...
ریگ زار عاشقی کے بعد تھا کوہ گراں
آگئے سر پھوڑ کر کے ہم آبلہ پائی کے بعد
...
دور تک پگڈنڈیوں کا سلسلہ سا رہ گیا
وہ گیا تو آنکھ میں بس پانی ٹھہرا رہ گیا
جاتے جاتے اُس نے ہر تعبیر مجھ سے چھین لی
میرے ہاتھوں میں فقط اک خواب فردا رہ گیا
...
میں نے اسے بھلانے کا سوچا نہیں کبھی
اس نے تو یاد آتا ہے کوشش فضول ہے
...
یہ میرا معمول ہے کہ دیکھتا ہوں راہ تری
اک شعاعِ شام سے بس پھر شعاع ِ شام تک
...
پاؤں دھونے کی رسم کرلی ہے
دل فریضہ تھا وہ نہیں دھویا
...
کوئی تو آئے خرید لے یہ روشنی مجھ سے
میں آنکھ اپنی ہتھیلی پہ لیے پھرتا ہوں
...
ہر اک بھوک سے پہلے اکثر سوچا ہے
کاش کہ پتھر بھی گلتے تو اچھا تھا
...
میں خود بھی سخت طبیعت ہوں ، ہوش میں رہنا
مجھ سے فرعون کے لہجے میں بات نہ کرنا
...
دل کا کوزہ عجیب کوزہ ہے
یاد کتنی بھی ہو نہیں بھرتا
...
تم نے پوچھا حال تو پھر ہم کو یہ کہنا پڑا
جی رہے ہیں تیرے بنا تو معجزہ کچھ اسے
...
اتنی تیزی سے زمیں بھی تو نہ گھومی ہوگی
تیرے جانے سے یہ سر گھوم گیا ہے جیسے
...
نہ سہہ کے سکو گے یوں راہ چاہت کی سختیاں تم
یقین جانو میں سے تم سے بچھڑا تھا احتیاطاً
...
ہم کہ ہر بار نئے ظلم کے عادی ہو کر
اتنے بزدل ہیں کہ دیوار سے لگ جاتے ہیں
...
نہ غم نہ کوئی درد نہ وحشت نہ بے خودی
کچھ بھی بچا نہیں ہے تیری بے رخی کے بعد
...
یہ عمر بھی تو آخر اک بے وفا سی ہے
جب ہم نے سیکھا تیرنا ، دریا اتر گیا
...
سونا رستہ تیرے بغیر ہوں میں
کتنا تنہا تیرے بغیر ہوں میں
روٹھ جاتا ہے جو جینوں سے
ایسا سجدہ تیرے بغیر ہوں میں
...
وہ تو لکھ کے چل دیا تھا دل پہ اک تحریر سی
عمر بھر میں ان دکھوں کا ترجمہ کرتا رہا
جرم لکھا تھا سچائی .... اُس کی دستاویز میں
کیوں وہ میری موت کا ہی فیصلہ کرتا رہا
...
’’چو کھمبی‘‘
خدارا! انہیں لوٹ آنے کا کہہ دو
چلن مختلف ہے زمانے کا کہہ دو
کرے اب نہ کوئی بھی بہانے کا کہہ دو
اگر فاصلے ہیں مٹانے کا کہہ دو
...
وہ عہد و پیمان کا رشتہ
رہ گیا بس پہچان کا رشتہ
ہولے ہولے ٹوٹ گیا ہے
وہ تھا جو اک جان کا رشتہ
...
ائے امیر شہر ثابت ’’ جرم چاہت‘‘ ہے مرا
جرم یکساں ہے ’’اُسے ‘‘ بھی شامل تفتیش کر
...
تمہیں ہی شوق تھا گر فاصلے بڑھانے کا
اب موقعہ ڈھونڈ نے رہنا ہمیں منانے کا
...
عجیب حدوں سے گزر کر نبھائی ہے چاہت
بجھی ہیں آنکھیں، کسی کا دیا جلاتے ہوئے
...
جب سے ٹوٹا میرے دل کا آئینہ
اب نہیں بھاتے یہ برتن کانچ کے
...
ستارے ٹوٹ کر بکھرے زمیں پہ
فلک پلکوں کا خالی ہو گیا ہے
...
سب نگاہوں کی بات سمجھے ہیں
کس نے دل کی زبان سمجھی ہے؟
...
زخم پہلے بھرے نہیں مرے
تو نے پھر سے کمان کسی لی ہے
...
کڑا یہ ہجر ہے کتنا خیال کر لیتے
میرا نہیں تھا تو اپنا خیال کر لیتے
میں ترا روکتا رستہ تو جُرم ہو جاتا
میں تیری رہ میں کھڑا تھا خیال کر لیتے
...
میں نے کیا تھا یونہی بچھڑنے کا تذکرہ
اُس کو تو جیسے کوئی بہانہ سا مل گیا
...
فیصلہ
اب سو چاہے اُس کو بھولنا بہتر ہے
دل بھی اُس دہلیز پہ دھر کے دیکھا ہے
بس کہ استقلال کے معنی ڈوب گئے
پانی سر سے اونچا کر کے دیکھا ہے
...
قطعہ
میں زندان خوف وڈر سے نکلا ہوں
عمر چرا کر لمحہ بھر سے نکلا ہوں
اس یہ کیا الزام کہ اُس نے چھوڑ دیا
میں تو خود سے دھوکا کھا کر نکلا ہوں
...
یوم تجدید عہد وفا کی قسم
مجھ کو احساسِ فکر و دعا کی قسم
ائے وطن تو میرا خون ہے سانس ہے
تیری خوشبوئے آب و ہوا کی قسم
...
فقط اک سال بدلا ہے مگر میں تو نہیں بدلا
میرے اندر کے موسم بھی دسمبر اب بھی باقی ہے
...
آج تو تنہا ہے کیسے آنکھ بھی غم ہے تری
پوچھتی ہے مجھ سے چھاؤں اِن گھنے درختوں کی
...
تو گیا تو کسی کو اپنا ہم سفر کرتے بھلا
رہ گیا رستہ ہی رستہ اک فقط میرے لئے
...
شام ہوتے ہی میں تنہا ہو گیا
سائے روٹھے ہوں اشجار سے جیسے
...
ہولے ہولے دُور ہوتے ہو گیا تیرا وجود
رہ گیا بس دھند میں لپٹا راستہ میرے لئے
...
تمہاری یادوں نے بخشا کیا ہے
میں خود ہی خود میں سمٹ کے رویا
وہ جس پہ لکھا تھا نام ہم نے
میں اس شجر سے لپٹ کے رویا
...
یہ تو طے ہے کہ ہے اِس میں خسارہ ہونا
اِتنا آساں بھی نہیں آنکھ کا تارا ہونا
تُم جو کہتے ہو تو کشش میں کوئی حرج نہیں
ویسے ممکن ہی نہیں پیار دوبارہ ہونا
...
مزارِ ذات سے خواہش کا جو لاشہ نکالا ہے
یقیں جانو کہ جیسے کا یہی رستہ نکالا ہے
میں اپنے وہم سے باہر نِکل کے آ گیا ہوں اب
کہ مر جاؤںنہ تیرے بن یہی ڈر سا نکالا ہے
...
اُس کے قریں میں کیسے حرفِ غلط ہُوا
میں جس کی گفتگو کا عنوان تھا کبھی
کس خامشی سے دِل سے وہ میرے گیا نقیبؔ
ہائے جو میرے دِل کا مہمان تھا کبھی
واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید