وہ ہی چاہت تو وہی پیار کہاں سے لاٶں

عارف پرویز نقیب غزلیات مشاہدات: 29 اسنادِ پسندیدگی: 0

وہ ہی چاہت تو وہی پیار کہاں سے لاٶں
میں صلیبوں کے علمدار کہاں سے لاٶں
اب تو ہر سوچ پہ ہے ذرد رُتوں کا پہرہ
شہرِ انکار میں اقرار کہاں سے لاٶں
کون اس درد کے یریحو سے نکالے مجھکو
اب میں وہ نعرے وہ للکار کہاں سے لاٶں
بیٹھ کے گرجوں میں روتے ہیں سناٹے تنہا
سویا ہے شہر تو بیدار کہاں سے لاٶں
ہے بھلا کون صلیبوں پہ لٹکنے والا
اب میں وہ جذبہِ اظہار کہاں سے لاٶں
سچ کو دفنا کے نقیب آج چلے تو آٸے
جھُوٹ کے قتل کو تلوار کہاں سے لاٶں
واپس جائیں