Fakhta logo
فاختہ بائبل اسٹڈی ٹولز
جلد متوقع مشمولات
پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم صلیبیؔ - فاختہ

پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم صلیبیؔ

عارف پرویز نقیب صریرِ خامہ مشاہدات: 57 پسند: 0

پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم صلیبیؔ
جناب عارف پرویز نقیبؔ عہد حاضر میں میرے پسندیدہ شعراء میں صفحہ اول کے وجدان و فکرگیر شاعر ہیں۔
انجام میرا سوچ کے سب سہمے ہوئے ہیں
میں جھوٹ کے اس شہر میں سچ بول رہا ہوں
جناب عارف پرویز نقیب کے بے باکانہ مجموعہ ء کلام کا مکمل تعارف ان کے اسی شعر میں پنہاں ہے۔
اگر چہ نقیب عام شعراء کی نسبت موضوعات کی مختلف جہتوں میں سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں جو حسیاتی سطح سے بلند ہو کر فکری سطح پر بات کرتے ہیں مگر حقیقت کی تلخی اور تیز روی کو روایت کے حسن میں اپنے منفرد انداز میں اثر انگیز بنانے کا یہ ہنر انہیں بطور شاعر منفرد مقام عطا کرتا دکھائی دیتاہے۔
ان کی طرف سے مجھے ان کے اس حالیہ شعری مجموعہ ’’سقوطِ عشق سے پہلے‘‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی فہمائش میرے لئے باعث اعزاز و افتخار ہے۔ کئی روز کی الجھنیں اور علیل طبع آڑے آ گئیں ورنہ ہفتوں کی تاخیر ایک شب کی نشست میں سما سکتی تھی۔ عشق اور وارداتٍ عشق کا ٹکراؤ کتنے تاج محل سنوارتا اور مسمار کر جاتا ہے۔ یہ طوفان سیل بے بہا جہاں احساس کے تان پورے سے اٹھتے مضطرب سروں کو ہنگامہ سکون و کیف میں ڈھال دیتا ہے وہاں ایک اضطراب کو بھی جنم دیتا ہوا فضا میں رکے طوفانوں کی یلغار کے آگے ڈھال بن جاتا ہے۔ ان کے مجموعہ کلام ’’حرف لامکاں‘‘کے منسوب جناب کے۔ آر ضیاء میرے شعری مجموعہ کلام ’’ سوکھے پتھر گیلی ریت‘‘ کے معنون ہیں۔یوں مجھے ان کا ہم استاد ہونا درجہ انبساط عطا کرتا ہے۔
عارف پرویز نقیب کے اشعار میں ان کا دل دھڑکتا اور ان کے لہو کا ولولہ مضطرب کروٹیں لیتا دکھائی دیتا ہے جو سچائی کی بے باکی سے معمور و مخمور ہو کر مجھ ایسے ناتواں مصلحت کوشوں سے ممتاز کرتا ہے۔ حرف و حکایت کی چلمن سے راز کی بات کو برسر عام منکشف اور عیاں کرنے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں کرتے۔ ان کی شاعری میں بے باکی اور بغاوت کا عنصر بھڑکتا ہوا وہ الاؤ ہےجو سچائی کی تاثیروں کے ایسے نقوش روشن کر دیتا ہے جن سے محبت کی رُتوں میں سرخ آندھیوں کے جھکڑ چلنے لگتے ہیں۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
تُو جا رہا تھا تو واپس پلٹ بھی سکتا تھا
بدن میں درد ہے بکھرا سمٹ بھی سکتا تھا
میرا یہ ظرف وفا ہی بنا ہے مجبوری
میں زخم کھا کے وگرنہ جھپٹ بھی سکتا تھا
وہ التجا تھی تری آنکھ میں ، میں ہار گیا
نہیں تو بازی میں جاناں الٹ بھی سکتا تھا
میں کاٹ دیتا جو تیری انا کی بیساکھی
ترا یہ قد تو میرے قد سے گھٹ بھی سکتا تھا

نقیبؔ کی شعری جہتوں میں جہاں لحاظ و مروت کی حدود لا محدود میں جرات بے باکانہ کی تیز رو ندی کا جوش بھی ہے وہاں ان کی شاعری میں دھیمی دھیمی بہنے والی جوئے آب کی خفتہ روانی بھی ہے۔ لہجہ کہیں نرم اور کہیں برہم ہوتا ہے۔
فرماتے ہیں،
یوں دھوکے میں نہیں رہنا مجھے تحقیق کرنا ہے
وفا تیری نہیں سمجھا مجھے تحقیق کرنا ہے
اور ملاحظہ فرمائیے:
فرقتوں اور قربتوں کے درمیاں مارے گئے
ہم بھی کیسے فاصلوں کے درمیاں مارے گئے

اس گلی سے اس گلی تک کٹ گئی عمر رواں
عمر بھر ہم ہجرتوں کے درمیاں مارے گئے

اور پھر نرم ہوا کا جھونکا، مزاج یار کی نرمی مزاج برہمی کی چلمن سے جھانکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، ملاحظہ ہو:
بہت روئے گلے مل کے
بچھڑنے سے ذرا پہلے
یہ کیسے خواب سے جاگے
بچھڑنے سے ذرا پہلے

بھول تو سکتا ہوں میں تجھ کو میری جان حیا
بھول جانے کے لئے عمر رواں بھی کم ہے
تو کہ احساس محبت سے ہے عاری جاناں
تو میرا وہم بھی یا دھوکہ بھی ہو سکتی ہے
نقیبؔ کو جھوٹ کے پردے سے بے دریغ چاک کر دینے کا باک حقیقت شناسی سے متعارف کرتا ہی چلا جاتاہے۔ملاحظہ ہو:
اس نے بھی کل شب اڑایا میری چاہت کا مذاق
میں نے بھی جی بھر کے اس کے حسن کی توہین کی
اشک بھی دفنا دٍیے آنکھوں کے قبرستان میں
اور دل وحشی کی میں نے سینے میں تدفین کی
جناب عارف پرویز نقیبؔ کا اشہب قلم محض تخیل کی سر سبز وادیوں میں گلگشت نہیں کرتا بلکہ ان کے کان عصری ماحول کی چیخ و پکار پر بھی سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔عام بول چال میں ان کے اشعار سہل ممتنع کا درجہ رکھتے ہیں۔ان کے چند اشعار دیکھئے:
وفائیں قتل ہوتی ہیں سنا تو نے
سماں ماتم گزیدہ سا، جگہ بدلیں

میرے مدار سے مجھ کو نکال دے کوئی
فلک کی سمت ہی مجھ کو اُچھال دے کوئی

ہیں ارد گرد جو میرے حصار کی صورت
کہ زہر سانپوں کا اب تو نکال دے کوئی

امیر شہر تو دنیا کی واہ واہ پہ نہ جا
تو میرے سچ کو سمجھ لے میری قبا پہ نہ جا

جب ظلم بڑھا ہے تو لگے قفل زباں پر
اب اپنی قیادت پہ ہیں شرمائے ہوئے لوگ

صحرا میں چلے جاتے ہیں بے سمت مسافر
ہر گام پہ دو بوند کے ترسائے ہوئے لوگ

جناب نقیب کی شاعری میں الجھاؤ نہیں۔ سادگی اور عام گفتگو میں ان کی بے باکی قابل فخر ہے جو ایک سوچتی ہوئی غمگین لیکن سنجیدہ فضا قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ ان کی بے باکی بے بصر لہروں کو مرتعش کرتی چلی جاتی ہے۔
اُن کا یہ مجموعۂ کلام ’’سقوطِ عشق سے پہلے‘‘ کے ارتعاش کو مرقع نقش زرنگار بنا رہا ہے جو ان کی مچلتی تڑپ کا غماز اور زبان و بیان کی تصنع گری سے عاری ہے۔خوب سے خوب تر کی ان کی کوشش حد و بے حد کی منازل سے ماورا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ان منکسرانہ معروضات کے ساتھ میں ان کے مداحوں کا ہم نوا ہوتے ہوئے ،ان کے مایہ ناز تخلیقی مرقع کی اشاعت پر انہیں خراجِ مرحبا پیش کرتا ہوں اور ان کے لئے دعا گو ہوں کہ ان کا اشہب قلم اپنی رفتار میں ان کے قلب کا غماز رہے۔ آمین!
دعاگو

پروفیسر ونسینٹ پیس عصیم صلیبیؔ
فیصل آباد، پاکستان

واپس جائیں

Please mark your visit by following our Facebook Page
اگر آپ بھی اپنی نگارشات فاختہ ڈاٹ آرگ پر شائع کرانا چاہتے ہیں تو۔۔۔ خوش آمدید