آٶ گریہ کریں کہ قدم در قدم

عارف پرویز نقیب غزلیات مشاہدات: 30 اسنادِ پسندیدگی: 0

آٶ گریہ کریں کہ قدم در قدم
گویا ذلت ہمارا مقدر بنی
ہم کہ انسان، انساں رہے ہی نہیں
ریزہ ریزہ یہاں عِزتیں ہو گٸیں
پیار و چاہت کی سب حِدتیں کھو گٸیں
اۓ مرے دیس کے لوگو! آٶ سنو
میں نے دیکھا ہے مُفلس کو لٹتے ہوے
جن کو رسوا کیا،
جن کی جاں تک گٸی
بیٹیاں روز ہوتی ہیں اغوا یہاں
خود کشی کا یہاں پہ رواج عام ہے
دن ہے روتا ہوا ماتمی شام ہے
یہ شرافت کی دستار اوڑھے ہوے
بھیڑیے گویا گلیوں میں چھوڑے ہوے
وہ درندے جو پکڑے گٸے ہی نہیں
وہ کہ وحشی جو جکڑے گٸے ہی نہیں
کب تلک حکمراں چین سے سوٸیں گے
کب تلک سایہِ غم میں ہم روٸیں گے
آسماں چُپ ہے اور یہ زمیں گُنگ ہے
آٶ ماتم کریں
آٶ گریہ کریں
آج نوحہ اُٹھاٶ کرو بین سب
خاک اپنے سروں پہ انڈیلو سبھی
ہم پہ جو حکمراں ہیں مُسلط ہوے
اپنے چُپ کی کہیں یہ سزا تو نہیں؟
چاہتوں کی یہ دھرتی تو بَنجر ہوٸی
بے کسوں کے لیے
بے بسوں کے لیے
یہ زمیں ہی نہیں
عزتوں کے محافظ رہے ہی نہیں
آٶ ماتم کریں
آٶ گریہ کریں
(عارف پرویز نقیب)
واپس جائیں