فرقتوں اور قربتوں کے درمیاں مارے گئے

عارف پرویز نقیب غزلیات مشاہدات: 3 اسنادِ پسندیدگی: 0

فرقتوں اور قربتوں کے درمیاں مارے گئے
ہم بھی کیسے فاصلوں کے درمیاں مارے گئے
۔۔۔
اِس گلی سے اُس گلی تک کٹ گئی عمرِ رواں
عمر بھر ہم ہجرتوں کے درمیاں مارے گئے
۔۔۔
اب ملیں گے، کل ملیں گے، پھر ملیں گے، سوچنا
کس قدر خوش فہمیوں کے درمیاں مارے گئے
۔۔۔
فن ہی نے کاٹی ہے میری شہ رگِ رزق و غذا
ہم کہ گیتوں، زمزموں کے درمیاں مارے گئے
۔۔۔
ہم ملیں تو جانے کیا طوفان برپا ہو نقیبؔ
بس یونہی ہم وسوسوں کے درمیاں مارے گئے
واپس جائیں