میرے نصیب میں جو تھا بھنور نہیں جاتا

عارف پرویز نقیب غزلیات مشاہدات: 2 اسنادِ پسندیدگی: 0

میرے نصیب میں جو تھا بھنور نہیں جاتا
اُدھر گیا ہوں میں رستہ جدھر نہیں جاتا
۔۔۔
یہ جسم و جان بھی یکساں تھے عشق بھی یکساں
کیوں درد سارا اِدھر ہے اُدھر نہیں جاتا
۔۔۔
یہ جینا ہے تو بہرحال، جینا چہ معنی؟
کسی کے جانے سے گو کوئی مر نہیں جاتا
۔۔۔
ہے کون جو کہ سرِ شب ہے منتظر میرا
کیوں لوگ کہتے ہیں مجھ سے تُو گھر نہیں جاتا
۔۔۔
مجھے وہ مل بھی گیا تو نقیبؔ جانے کیوں
وہ میرا نہ ہو سکے گا یہ ڈر نہیں جاتا
واپس جائیں