میں سینے پہ رکھ کے پتھر لوٹا ہوں

عارف پرویز نقیب غزلیات مشاہدات: 2 اسنادِ پسندیدگی: 0

میں سینے پہ رکھ کے پتھر لوٹا ہوں
تجھ کو ڈھونڈ نہ پایا تو گھر لوٹا ہوں
۔۔۔
خوف زدہ نہ کر دریا کی لہروں سے
میں تو کر کے پار سمندر لوٹا ہوں
۔۔۔
اپنے خوابوں، گیتوں اور اُمیدوں کو
میں تیری دہلیز پہ دھر کر لوٹا ہوں
۔۔۔
دیکھ میں چھین ہی لوں گا چھایا قربت کی
میں فرقت کی دھوپ سے آخر لوٹا ہوں
۔۔۔
سچ کی قیمت فلک سے باتیں کرتی ہے
میں بھی دے کے نذرانہِ سر لوٹا ہوں
۔۔۔
وار کرے گا تو پھر دیکھا جائے گا
میں ہاتھ میں لے کے خنجر لوٹا ہوں
۔۔۔
نام نقیبؔ تھا مر گیا آدمی اندر کا
آج ہی اُس کو میں دفنا کر لوٹا ہوں
واپس جائیں