بابِ دل آج مسیحا کے لئے باز رہے (کرسمس غزل)


بابِ دل آج مسیحا کے لئے باز رہے
دوست! اظہارِ عقیدت کا یہ انداز رہے
سبز پتوں نے بہاروں کی کہانی لکھی
اب نہ ہاتھوں میں ترے درد بھرا ساز رہے
خود خداوند کا انساں میں مجسم ہونا
نوعِ انساں یہ مبارک تجھے اعزاز رہے
سر بریدہ میں زباں حالِ ستم کہتی ہو
آج مقتل میں سرِ دار یہ اعجاز رہے
نکلا سورج تو پہاڑوں سے برف پگھلی ہے
اب تو دریا میں تموج کا وہ آغاز رہے
بے زبانو! یوں پکارو کہ تمہاری تا دیر
گونجتی گنبدِ افلاک میں آواز رہے
اے مسیحا! یہ کیا ہے کہ سرِ شامِ طرب
کوئی افسردہ، کوئی زمزمہ پرداز رہے